السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
صریح الفاظ میں دو بار طلاق دی خود بھی سنی بیٹا بھی گواہ ہے۔ایک بار کہا کہ میں نے ایک بار طلاق دی دوسری بار قرآن اٹھایا وضو کر کے کہا میں نے طلاق دی۔اب اس کی عدت کا شمار کب سے ہو گا؟
عورت اب اپنے والد کے گھر ہے تو اس کی عدت حیض سے شمار ہو گی یا جب سے طلاق دی ہے؟
تنقیح: دونوں طلاقوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا اور کیا رجوع کیا تھا؟
جواب تنقیح: پانچ منٹ کا وقفہ تھا اور رجوع بھی نہیں کیا۔
الجواب باسم ملھم الصواب
مذکورہ عورت کو جس وقت سے شوہر نے طلاق دی ہے اسی وقت سے عدت شروع ہو کر تین حیض گزرنے کے بعد پوری ہوجائے گی۔ البتہ اگر حالتِ حیض میں طلاق دی تو یہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا ،اس کے علاوہ مزید تین حیض پورے کرنے ہوں گے۔تاہم مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ چونکہ صریح ہیں۔صریح الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے،اس لیے اگر عدت کے دوران شوہر رجوع کرنا چاہے تو اسے رجوع کا بھی اختیار ہوگا۔
نوٹ:یہ جواب اس عورت کے متعلق ہے جو حمل سے نہ ہو۔حاملہ عورت کی عدت بچہ جننے سے پوری ہوگی ۔
————————————————————————————–
حوالہ جات:
1)” وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ “{سورۃ البقرہ:228}
ترجمہ:” اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں”۔
2} :ابتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق و فی الوفاۃ عقیب الوفاۃ۔۔۔۔الخ۔”
{الھندیۃ:532}
3) ”إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولاتحتسب هذه الحيضة من العدة، كذا في الظهيرية”.
{فی الھندیۃ: 527}
واللہ اعلم بالصواب
26 ربیع الاول 1443ھ
1 نومبر 2021 ء