سوال : اگر بوقت ضرورت اپنے پاس سود کے پیسے ہوں اور حلال کام میں استعمال کر لیا اور بعد میں اپنی حلال کمائی سے اتنے پیسے بغیر ثواب کے صدقہ کے لیے نکال دیں—–تو
1 : ان صدقہ کیے ہویے پیسوں سے اپنے بھتیجے کو کوئی سائیکل خرید کر دے سکتے ہیں؟
2: یا موبائل بیلنس لوڈ کروا سکتے ہیں؟
تنقیح : بھتیجا بالغ ہے کہ نابالغ اور اس کے والدین غنی ہیں یا فقیر؟
جوابِ تنقیح : بالغ فقیر ہے۔ اور اس کے والدین غنی ہیں-
الجواب باسم ملھم الصواب،
واضح رہے کہ جس طرح سود کا مال لینا اور دینا دونوں حرام ہے ، اسی طرح اس کا استعمال میں لانا بھی حرام ہے، البتہ اگر کسی نے سود کا مال استعمال کرلیا تو اس پر اتنی ہی رقم ثواب کی نیت کے بغیر غریبوں پر صدقہ دینا واجب ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ بھتیجا بالغ فقیر ہے اس لیے اسے ان پیسوں سے کو سائیکل خرید کر دے سکتے ہیں۔
نیز حرام مال کو صدقہ کرنے میں مالک بنانے کی شرط نہیں، اس لیے مال حرام سے کسی غریب کے موبائل میں بیلنس لوڈ کروانا یا کوئی اور رفاہی کام میں لگانا جائز ہے۔
=======================
حوالہ جات :
1: وفیہ من متفرقات الغصب مثل یوسف بن محمد عن غاصب ندم علی مافعل واراد ان یرد المال الی صاحبہ وقع الیاس عن وجود صاحبہ فتصدق بھذا العین ھل یجوز للفقیر ان ینتفع بھذا العین فقال لایجواز ان یقبلہ ولا یجوز لہ الانتفاع وانما یجب علیہ ردہ الی من دفعہ الیہ قال انما اجاب بھذا الجواب زجرا کیلا یتساھلون فی اموال الناس اما لو سلک الطرق فی معرفۃ المالک فلم یجد فحکمہ حکم القطۃ . کذا فی التاتار خانیۃ.
( فتاویٰ ہندیہ: 5/75 )
2 : مال حرام وربح خبیث کو صدقہ کرنے کا حکم ایک خاص اصل پر مبنی ہے وہ یہ کہ جن اموال کے مالک معلوم نہ ہوں یا ان تک پہنچانا متعذر ہو وہ بحکم لقطہ ہوجاتے ہیں اور حکم لقطہ یہی ہے کہ جب مالک کے ملنے سے مایوسی ہوجائے تو مالک کی طرف سے اس کا مال صدقہ کردیا جاۓ، مال حرام کے مالک جب معلوم نہ ہوں یا ان کو پہنچانا متعذر ہو تو اس مال کا صدقہ کرنا بھی حکم لقطہ مالک اموال کی طرف سے ہوگا، اسی وجہ سے اس کو صدقہ کہنا صحیح ہوا-
( جواہر الفقہ : 3/328 )
3 : ( راۓ گرامی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ )
ناچیز کا رجحان عرصہ دراز سے اسی طرف ہوتا تھا کہ کسب خبیث ( اموال واجبۃ التصدق ) کے تصدق میں تملیک واجب نہ ہونی چاہیے؛ کیونکہ یہ صدقہ اصل مالک کی طرف سے بطور صدقۂ نافلہ کے ہوتا ہے، اور صدقات نافلہ میں صدقاتِ جاریہ بھی داخل ہیں، جن میں تملیک نہیں ہوتی –
( فتاویٰ عثمانی : 3/140 )
واللہ اعلم بالصواب
قمری 20/6/1443
شمسی 24/2/2022