زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ 

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

میری جاننے والی ہیں بہت مستحق ہیں لیکن کسی سے سوال نہیں کرتیں انہوں نے مجھ سے دس ہزار کی رقم بطور قرض مانگی اتفاق سے اسی مہینے زکوة نکالی تو وہ رقم زکوة کی مد میں دے دی لیکن وہ راضی نہیں تھی میں نے قرض کا کہہ کر ہی دے دیا اب وہ اپنے قرض کی رقم واپس کررہی ہیں اگر میں لے لوں تو کیا میری زکوة ادا ہوگی ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے کہ زکوٰۃ دیتے وقت مستحق کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے،بلکہ دل میں زکوٰۃ کی نیت کرکے ہدیہ اور قرض کے الفاظ استعمال کرکے بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

مذکورہ صورت میں اگر آپ نے مستحق خاتون کو قرض دیتے وقت زکوۃ کی نیت کرلی تھی تو آپ کی زکوٰۃ اُسی وقت ادا ہو گئی تھی۔اب اگر وہ واپس کرنا چاہ رہی ہیں تو آپ ان پر واضح کر دیں کہ زکوۃ کی رقم سے ہی ان کو قرض دیا تھا،لہذا اب وہ اس رقم کواپنے استعمال میں لے آئیں ۔

اگر وہ اس بات پر بضد ہیں کہ وہ یہ رقم نہیں رکھنا چاہتی ہیں تو آپ اس رقم کو ان کی اجازت سے صدقہ کر دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔،۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1.لما فی ’’الشامیۃ‘‘: ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ (334,2)

2.وفیہ ایضا : مصرف الزکاۃ وھو فقیر الخ( 339,2 )

3.واعلم ان اداء الدین عن الدین والعین عن العین وعن الدین یجوز واداء الدین عن الٔعین ، و عن دین سیقبض لایجوز وحیلۃ الجواز ان یعطی مدیونہ‘ الفقیر زکاتہ ثم یأخذ ھا عن دینہ ………..

(شامی، ج2، ص269-270، ط سعید)

4. “فتاوی عالمگیری”  میں ہے:

“لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، … و لايدفع إلى بني هاشم،..….. كذا في الهداية ۔.”

(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه)

5-ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية”۔فقط واللہ اعلم

فقط

واللہ اعلم بالصواب

10 ربیع الثانی 1443ھ

16نومبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں