سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنے والد کا فدیہ دینا چاہتی ہوں میرے والد لیکسن ٹوبیکو کمپنی میں میکینیکل انجینئیر تھے والد کو بچپن سے صوم و صلوٰۃ کا پابند دیکھا چند سالوں سے کبھی نماز پڑھتے کبھی نہ پڑھتے دو سال قبل انتقال ہو گیا چھ ماہ ڈائیلاسز کے شدید مرض میں مبتلاء رہنے کے بعد٫وہ میرے ہی پاس تھے ان کی وہ تکلیف ہر وقت مجھے درد دیتی ہے آ پ مجھے بتائیں ہر ماہ کتنا فدیہ دیا کروں پانچ یا چھ سال بنتے ہیں ۔
الجواب باسم ملهم الصواب
وعلیکم السلام و رحمة الله!
اگر کسی آدمی کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں اور اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ سے فی نماز ایک فدیہ(صدقہ فطر کے برابر رقم) ادا کریں۔اگر مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر کوئی وارث اپنی خوشی سے ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہےاور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے۔ چھ سال کی نمازیں 13,140 بنتی ہیں اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو احتیاطا دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے،آج کل 140 روپے ہے۔ اس حساب سے تمام نمازوں کا فدیہ 1،839،600 بنتا ہے۔ فدیہ کی رقم کا حساب لگاتے وقت موجودہ سال کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق ہر ماہ جتنا چاہے ادا کر سکتی ہیں۔
===================
حوالہ جات
1.“ أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، رد المحتار، 2/ 72)
2.“ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر). (الدر المختار وحاشية ابن عابدين، رد المحتار، 2/ 72):
🔸و اللہ سبحانہ اعلم بالصواب🔸
بقلم:
قمری تاریخ: 12 ربیع الثانی 1443ھ
عیسوی تاریخ: 18 نومبر 2021ء