کیا وقت میں سہولت کے پیش نظر ایک جامع مسجد میں دو امام باری باری نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں؟
ج)جواب سے پہلے چند باتیں ملاحظہ ہوں:
1جس مسجد امام اور مؤذن مقرر ہوں اور باقاعدہ جماعت سے نماز ہوتی ہوتو وہاں جب پہلی جماعت اذان اور اقامت کے ساتھ ادا کی جاچکی ہوتو پھر دوسری جماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
2.نمازِ جمعہ کا مقصد مسلمانوں کا ایک ساتھ جمع ہوکر نماز ادا کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہو،دو جماعتیں کرانے سے یہ مقصد فوت ہوجائے گا۔
3.لوگ سستی اور کاہلی کا شکار ہوجائیں گے،ہر آدمی پہلی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شریک ہوگا۔بعض لوگ تو اس انتظار میں دوسری جماعت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
لہذا ایک مسجد میں دو بار جمعہ کی ادائی شرعاً مکروہ ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔اگر کسی کا جمعہ رہ جائے گا تو وہ دوسری مسجد میں بھی ادا کرسکتا ہے۔
===========================
حوالہ جات:
1.لما قال اللہ تعالی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹﴾
ترجمہ:مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خریدوفروخت ترک کر دو اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
2: رد المحتار علی الدر المختار ( کتاب الصلاۃ باب الاذان؛ 2/79 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ):
وتکرار الجماعۃ لما روی عبد الرحمن بن ابی بکر عن ابیہ: “ان رسول اللہ ﷺ درج من بیتہ لیصلح بین الانصار فرجع و قد صلی فی المسجد بجماعۃ، فدخل رسول اللہ ﷺ دم منزل بعض اھلہ فجمع اھلہ فصلی بھن جماعۃ۔” ولو لم۔یکرہ تکرار الجماعۃ فی المسجد لصلی فیہ۔ وروی عن انس: “ان اصحاب رسول اللہ ﷺ کانو اذا فاتتھم الجماعۃ فی المسجد صلوا فی المسجد فرادی۔” لان التکرار یؤدی الی تقلیل الجماعۃ؛ لان الناس اذا علموا انھم تفوتھم الجماعۃ یتعجلون فتکثر ،والا تاخروااھ۔(بدائع)
3: الدر المختار مع در المحتار: (کتاب الصلاۃ باب الامامۃ 2/342 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ):
ویکرہ تکرار الجماعۃ۔
ویکرہ: آی تحریمالقول الکافی لا یجوز۔۔۔یکرہ تکرار الجماعۃ فی مسجد محلۃ باذان و اقامۃ۔۔۔ و مراد بمسجد المحلۃ: ما لہ امام و جماعۃ معلومون کما فی الدرر وغیرھا۔
4:ایک مسجد میں جمعہ کی دو جماعتیں کرنا شرعا مکروہ ہے؛ اس لیے یہ معمول ترک کردیں، اگر جگہ تنگ ہو تو کسی میدان یا ہال وغیرہ میں دوسری جماعت کرلیا کیں، جوازِ جمعہ کے لیے ”مسجد“ ہی میں ادا کیا جانا ضروری نہیں ہے، اگر دو جماعت کا معمول ترک کردیں گے تو یہ نزاع بھی باقی نہ رہے گا، نیز نماز بھی بلاکراہت ادا ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
ویب سائٹ ،دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
واللہ تعالیٰ اعلم
18/10/21
11/3/43