چہرے پر چھ ماہ کے لیے فاؤنڈیشن لگوانا

سوال:آج کل ایک بیوٹی ٹریٹمنٹ بہت رواج پا رہا ہے آپکے چہرے پر فاونڈیشن لگاتے ہیں اور وہ چھ مہینے تک برقرار رہتی ہے اسی طرح ہونٹوں پر کسی خاص طریقے سے لپ اسٹک لگائی جاتی ہے وہ چھ مہینے تک برقرار رہتی ہے چاہے آپ رگڑ رگڑکر منہ کیوں نہ دھویں

یہ ٹریٹمنٹ سے وضو ہو گا یا نہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

اس سے متعلق چند باتیں ملاحظہ ہوں:

▪️ ہماری تحقیق کے مطابق اس عمل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آرٹیفیکل میل یعنی داغ دے کر یا سوئی سے سوراخ کر کے اس فاؤنڈیشن کو جلد کے اندر داخل کیا جاتا ہے اور اسے حسن میں زیادتی کا باعث سمجھا جاتا ہے چونکہ یہ عمل “وشمہ”( گودنا) کہلاتا ہے اور حدیث میں واشمات، مستوشمات پر لعنت کی گئی ہے اس وجہ سے یہ ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

“عن ابن عمر أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة”. ( متفق علیه ، المشکاة : ٣٨١ )

ترجمہ:آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر ( بھی لعنت فرمائی)

▪️یہ risky treatment ہے اور جلد کے لیے سخت نقصان دہ ہے اس لحاظ سے بھی اس کا ترک کرنا لازم ہے۔

▪️ اصل حکم تو اس لپ اسٹک اور فاؤنڈیشن کے چھڑانے کا ہے ،لیکن اگر اس کے ہٹانے کی صورت میں حرج ہو تو حرج کی وجہ سے عمل کے ناجائز اور حرام ہونے کے باوجود وضو اور غسل ہو جائے گا۔

___________

حوالہ جات

(١) ما في ’’ المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ‘‘ : الوشم وہي أن تغرز إبرۃ أو مسلۃ أو نحوہما في ظہر الکف أو المعصم أو الشفۃ أو غیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل الدم ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورۃ فیخضر ۔۔۔۔ فإن طلبت فعل ذلک بہا فہي مستوشمۃ ، وہو حرام علی الفاعلۃ والمفعول بہا باختیارہا والطالبۃ لہ ۔۔۔۔۔ وسواء في ہذا کلہ الرجل والمرأۃ ۔ واللہ أعلم ۔ (۷/۲۳۱ ، کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ ، تحت الرقم :۲۱۲۵)

(٢) ما في ’’ فتح الملہم ‘‘ : أما الواشمۃ بالشین المعجمۃ ففاعلۃ الوشم وہي أن تغرز إبرۃ ونحوہما في ظہر الکف أو المعصم، أو الشفۃ أو غیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل الدم ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورۃ فیخضّر وقد یفعل ذلک لنقش صور أو نقوش وفاعلۃ ہذا واشمۃ، والمفعول بہا ذلک موشومۃ، فإن طلب فعل ذلک بہا فہی مستوشمۃ، والوشم حرام بنص ہذا الحدیث علی الفاعلۃ والمفعول بہا باختیارہا والطالبۃ لہ۔

(٣)ما فی ’’ أحکام تجمیل النساء ‘‘: وبعد النظر إلی أقوال الفقہاء فیہا أن القول بالإباحۃ ہو الأولی شرط أن لا تکون ہذہ المواد مضرۃ ، فإن کانت مضرۃ فإن الحکم یتغیر إلی المنع إذا سبق القول بأن التحریم یتبع الخبث والضرر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فالمکیاج إذا کان یجملہا ولا یضرہا فإنہ لا بأس بہ ولا حرج ولکني سمعت أن المکیاج یضر بشرۃ الوجہ، وأنہ بالتالي تتغیر بہ بشرۃ الوجہ تغیراً قبیحاً قبل زمن تغیرہا في الکبر ۔

(ص : ۲۰۰؍۲۰۱ ، المطلب الرابع أحکام عامۃ فی تجمیل الوجہ)

(٤) الجامع الصغیر: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي یبقی في أظفاره الدرن، أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأة التي صبغت إصبعها بالحناء أو الصرام أو الصباغ قال: کل ذلک سواء یجزیهم وضوء هم إذ لایستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوی علی الجواز”. (الفتاوی الهندیة ۱؍۴)

“ویعفی أثر شق زواله بأن یحتاج في إخراجه إلی نحو الصابون”. (مجمع الأنهر ۱؍۹۰)

“والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتهما سقطت”. (البحر الرائق ۱؍۲۳۷)

“شرط صحته أي الوضوء زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع شحم”. (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۶۲)

والله اعلم

٢٢صفر ١٤٤٣

٣٠ستمبر ٢٠٢١

اپنا تبصرہ بھیجیں