حدیث میں وارد یہ وعید کہ “جس نے تین بار سے کم یا زیادہ بار اعضا دھوئے اس نے تعدی کی اور ظلم کیا “اس کامصداق خاص وہ صورت ہے جب وہ اس نظریے سے دھوئے کہ سنت تین بار دھونا نہیں بلکہ دو بار یا چاربار دھوناہےاس وقت وہ اسراف بھی کہلائے گا۔لہذا اگر کوئی شخص شک کےموقع پر اطمینان قلب کے لیے سے زیادہ بار دھوئے تو اسے کوئی گناہ نہیں، نہ یہ اسرف ہے۔اسی طرح جو شخص مجبوری کی وجہ سے تین سے کم بار استعمال کرے وہ بھی گناہ گار نہیں۔
وضو ءعلی الوضوءیعنی وضوہوتے ہوئے دوبارہ وضوکرنا نور علی نور ہےلیکن شافعیہ کے بقول یہ اس وقت ثواب اور باعث فضیلت ہے جب ایک وضو سے کم ازکم دورکعتیں پڑھ لی گئی ہوں چاہے فرض پڑھے ہوں یانفل یاکوئی اور عبادت مقصودہ ادا کرلی ہو۔اس کے بغیر دوبارہ وضوکووہ اسراف فرماتے ہیں۔ہمارے متعدد اکابر نے بھی یہی تعبیر اپنے فتاوی میں اختیار کی ہے جبکہ در مختار اور شامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس واحد میں ایک بار کے بعد دوسری بار وضومکروہ نہیں،ہاں! متعددبار وضومکروہ ہے، مجلس بدل جائے تو وہ بھی مکروہ نہیں۔
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ میرے شیخ اور استاذعلامہ عبدالغنی نابلسی کے مطابق ایک وضوکے بعد پہلی بار وضومکروہ نہیں چاہے اسی مجلس میں ہو یا الگ مجلس میں،البتہ اس سے زیادہ بار وضو مکروہ ہے؛کیونکہ حدیث من توضاعلی طھرکتب لہ عشر حسنات مطلق ہے ،ایک وضوکے بعد پہلی بار کاوضوبھی اس کے اطلاق میں شامل ہے۔(ردالمحتار :1/259،260مکتبہ رشیدیہ)