1_”عمر بن عبد الرحمن رضی اللّٰہ عنہ” کا مشورہ“
“حضرت عمر بن عبد الرحمن رضی اللّٰہ عنہ” حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ” آپ” ا یسے شہر جا رہے ہیں جہاں “یزید” کے حکام اور امراء موجود ہیں-ان کے پاس بیت المال ہے٫اور لوگ عام طور پردرہم ودینار کے پرستار ہیں-مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ لوگ”آپ رضی اللّٰہ عنہ”کے مقابلہ پر نہ آجائیں٫جنہوں نے “آپ” سے وعدے کیےہیں-ان کے قلوب میں بلا شبہ”آپ”زیادہ محبوب ہیں بنسبت ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہو کر وہ “آپ”سے مقابلہ کریں گے-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”نے شکریہ کے ساتھ ان کی نصیحت کو سنا اور فرمایا”کہ میں آپ کی رائے اور مشورے کا خیال رکھوں گا-
“حضرت عبدااللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ” کا مشورہ”
“ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ” کو جب” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے ارادہ کی اطلاع ملی تو پریشان ہو کر تشریف لائے اور فرمایا”کہ میں نے”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے”کوفہ” جانے کی خبر سنی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟”آپ”کا کیا ارادہ ہے؟-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا” ہاں میں ارادہ کر چکا ہوں اور آج کل میں جانے والا ہوں-
“حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا”,بھائ میں اس سے”آپ” کو” اللہ”کی پناہ میں دیتا ہوں٫اللہ”کے لئے “آپ” مجھے یہ بتلائیں کہ کیا”آپ”کسی ایسی قوم کےلئے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے اوپر مسلط ہونے والے امیر کو قتل کر دیا ہے اور وہ لوگ اپنے شہر پر قابض ہو چکے ہیں-اور اپنے دشمن کو نکال چکے ہیں٫تو بیشک”آپ”کو ان کے بلانے پر فوراً چلے جانا چاہئیے-اور اگر وہ”آپ”کو ایسی حالت میں بلا رہے ہیں کہ جب ان کے سروں پر ان کا امیر قائم و موجود ہے اور وہ اس سے مغلوب و متاثر بھی ہیں٫ان کے حکام “زمینوں” کا مالیہ وصول کرتے ہیں٫تو ان کی یہ دعوت “آپ”کو ایک سخت جنگ اور مقابلہ کی دعوت ہے اور مجھے یہ بھی خطرہ ہے کہ یہی لوگ “آپ رضی اللّٰہ عنہ”کو دھوکہ دیں اور مخالفت پر آمادہ ہو جائیں-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے جواب میں فرمایا “اچھا میں استخارہ کرتا ہوں پھر جو سمجھ میں آئے گا اس پر عمل کروں گا-
“”حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہ”دوسرے روز پھر تشریف لائے اور فرمایا” کہ میرے بھائ میں صبر کرنا چاہتا ہوں صبر نہیں آتا- مجھے “آپ”کے اس اقدام سے”آپ کی اور آپ کے اہل بیت” کی ہلاکت کا شدید خطرہ ہے٫اپ”کوفہ” نہ جائیں وہ بے وفا لوگ ہیں٫ آپ اسی شہر مکہ” میں اقامت کریں٫اگرا”اہل عراق”آپ”سے آنے کا مزید تقاضا کریں تو”آپ “انکو یہ لکھیں کہ پہلے اپنے “امراء اور حکام کو اپنے شہر سے نکال دیں پھر مجھے بلائیں تو میں آجاونگا-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا کہ”ابنِ عباس” میں جانتا ہوں کہ آپ” ناصح و مشفق ہیں٫ مگر میں اب ارادہ کر چکا ہوں اور اس کو فسخ کرنے کے لئے طبیعت آمادہ نہیں ہوتی-
“حضرت عبدااللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا کہ”میرے بھائ اگر آپ جانا طے کر ہی چکے ہیں تو”اللہ”کے واسطے اپنی” عورتوں اور بچوں” کو ساتھ نہ لے جائیں٫ مجھے خوف ہے کہ کہیں “آپ” اسی طرح اپنی “عورتوں اور بچوں” کے سامنے قتل کئے جائیں جس طرح” حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ” شہید کئے گئے تھے-
“فرزوق شاعر کی ملاقات”
راستہ میں”فرزوق شاعر” عراق کی طرف سے آتا ہوا ملا- اسنے”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کو دیکھ کر پوچھا کہ” کہاں کا قصد ہے؟ “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے اسکی بات کاٹ کر پوچھا کہ” یہ تو بتاؤ “اہل عراق و کوفہ” کو تم نے کس حال میں چھوڑا ہے؟”فرزوق”نے کہا”اہل عراق و کوفہ” کے دل تو “آپ”کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں” بنو امیہ” کے ساتھ ہیں٫اور تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور “اللہ تعالیٰ”جو چاہے وہ کرتا ہے-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا”تم سچ کہتے ہو اور فرمایا-
“اللّٰہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تمام کام٫وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمارا رب ہر روز نئ شان میں ہے-
اگر تقدیر الہٰی ہماری مراد کے موافق ہوئ تو ہم “اللہ تعالیٰ” کا شکر ادا کریں گے٫سوہم شکر کرنے میں بھی اسی کی اعانت طلب کرتے ہیں”کہ ادائے شکر کی توفیق دے آمین-اور اگر تقدیر الہٰی ہماری مراد میں حائل ہو گئی تو وہ شخص خطا پر نہیں جسکی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خوف خدا ہو- ( کامل ابنِ اثیر)
“عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ”کا خط اور واپسی کا مشورہ”
“حضرت عبدااللہ بن جعفر رضی اللّٰہ عنہ” نے جب “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی روانگی کی خبر پائ تو ایک خط لکھ کر اپنے بیٹوں کے ہاتھ روانہ کیا کہ تیزی سے پہنچیں-
خط کا مضمون یہ تھا کہ ” میں اللہ تعالیٰ” کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ”آپ”میرا خط پڑھتے ہی مکہ کی طرف لوٹ آئیں٫ میں محض خیر خواہانہ عرض کر رہا ہوں٫مجھے “آپ”کی ہلاکت کا خطرہ ہے٫اور یہ خوف ہے کہ”آپ “کے سب اہل بیت اور اصحاب” کو ختم کر دیا جائے اور اگر اللہ نہ کرے ایسا ہو گیا تو”زمین”کانور” بجھ جائے گا کیونکہ”آپ” مسلمانوں کے پیشوا اور ان کی”آخری امید ہیں- آپ جانے میں جلدی نہ کریں٫ اس خط کے پیچھے میں خود بھی آرہا ہوں-
والسلام (ابن اثیر)
یہ خط لکھ کر”عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ” نے یہ کام کیاکہ” والئ مکہ”عمر بن سعید” کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے کہا کہ آپ”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے لئے”پروانہء امان لکھ دیں اور اس بات کا تحریری وعدہ بھی دے دیں کہ “اگر وہ ” مکہ”واپس آجائیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا-
عامل مکہ”عمرو بن سعید” نے پروانہ لکھ دیا اور” عبداللہ بن جعفر رضی اللّٰہ عنہ،” کے ساتھ اپنے بھائی”یحییٰ بن سعید کو بھی” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کی طرف بھیجا-
یہ دونوں راستے میں جا کر”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” سے ملے اور “عمرو بن سعید” کا پروانہ اورخط سنایا اور کوشش کی کہ وہ لوٹ جائیں-
اس وقت”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے اپنے اس عزم کی ایک وجہ بھی بیان کی-
( جاری ہے)
حوالہ:شہید کربلا-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان