بیوی کا شوہر کو حق معاف کرنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

دوسری شادی کرنے کی صورت میں شوہر کو حق معاف کرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

ازدواجی رشتہ ،زوجین کے مابین کئی حقوق کو لازم کردیتا ہے ،مثلا :بیوی کا مہر،نان و نفقہ،رہائش،اور کسی ایک کے انتقال کی صورت میں دوسرے کا اس کے ترکے میں حصہ وغیرہ۔

چنانچہ شوہر کے ذمے بیوی کے ان تمام حقوق کا ادا کرنا لازم ہے ۔دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی کے حقوق ساقط نہیں ہوتے ۔اگر وہ دو بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر سکتا تو اس کو دوسری شادی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔نہ ہی اس بنا پر پہلی بیوی کو طلاق دینا حلال ہوگا۔

تاہم اگر شوہر پہلی بیوی کو اسی صورت میں ساتھ رکھنے پر تیار ہوتا ہے کہ وہ اس کو حقوق معاف کردے گی اور بیوی بھی مصالحت پر آمادہ ہے،طلاق نہیں چاہتی،تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی رضامندی سے اپنے حق سے دستبردار ہوجائے ۔حق سے دستبردار ہونے سے مراد یہ ہے کہ خاص ازدواجی حق(ہمبستری) ،یا اپنی باری معاف کردے۔اس صورت میں شوہر کے لیے دو بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنا لازم نہیں ۔ واضح رہے کہ یہ دستبرداری صرف رات گزارنے میں ہے،باقی نان و نفقہ اور رہائش وغیرہ تمام حقوق بدستور شوہر کے ذمے لازم رہیں گے ،بیوی کے چھوڑ دینے سے شوہر سے وہ معاف نہیں ہوں گے۔

نیز عورت اگر چاہے تو دوبارہ اپنی باری کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

چنانچہ” آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں ہے:

”پہلی بیوی کے برابر کے حقوق ادا کرنا شوہر کے ذمہ فرض ہے، اگر دُوسری شادی کرکے پہلی بیوی سے قطع تعلق رکھے گا تو شرعاً مجرم ہوگا۔ البتہ یہ صورت ہوسکتی ہے کہ وہ پہلی بیوی سے فیصلہ کرلے کہ میں تمہارے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہوں، اگر تمہاری خواہش ہو تو میں تمہیں طلاق دے سکتا ہوں، اور اگر طلاق نہیں لینا چاہتی ہو تو حقوق معاف کردو۔ اگر پہلی بیوی اس پر آمادہ ہو کہ اسے طلاق نہ دی جائے وہ اپنے شب باشی کے حقوق چھوڑنے پر آمادہ ہے تو اس کو خرچ دیتا رہے، شب باشی اس کے پاس نہ کرے۔ اس صورت میں گنہگار نہیں ہوگا۔ پھر بھی جہاں تک ممکن ہو دونوں بیویوں کے درمیان عدل و مساوات کا برتاوٴ کرنا لازم ہے۔“(۵/۱۸۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۔(النساء :۴)

(۲) ”أَبْغَضُ الْحَلَالِ الی اللّٰہِ الطَّلَاقُ“ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰة ص:۲۹۳) ایک دوسری روایت میں ہے: لاَ خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً عَلٰی وَجہِ الأرْضِ أبْغَضَ الیہ مِنَ الطَّلاَقِ (دارقطنی بحوالہ مشکوٰة ص:۸۴) کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسندچیز کو پیدا نہیں فرمایا۔

(۳)عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِيَوْمِهَا وَيَوْمِ سَوْدَةَ(صحیح بخاری،کتاب النکاح ،حدیث نمبر :5212)

(۴)ولو وهبت إحدى المرأتين القسم لصاحبتها جاز ولها أن ترجع متى شاءت (الھندیۃ : کتاب النکاح الباب الحادی عشر فی القسم: ۱/۳۴۱) كذا في السراج الوهاج

(۵) ( ولو تركت قسمها ) بالكسر أي نوبتها (لضرتها صح ولها الرجوع في ذلك ) في المستقبل لأنه ما وجب فما سقط (الدرالمختار: کتاب النکاح باب القسم:۳/ ۲۰۶)

(۶) ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان(وفی الھندیۃ : الباب الحادي عشر في القسم:۱/۳۴۰)

(۷) “الْمَرْأَةُ إذَا أَبْرَأَتْ الزَّوْجَ عَنْ النَّفَقَةِ بِأَنْ قَالَتْ: أَنْتَ بَرِيءٌ مِنْ نَفَقَتِي أَبَدًا مَا كُنْتُ امْرَأَتَكَ، فَإِنْ لَمْ يَفْرِضْ لَهَا الْقَاضِي النَّفَقَةَ فَالْبَرَاءَةُ بَاطِلَةٌ، وَإِنْ كَانَ فَرَضَ لَهَا الْقَاضِي كُلَّ شَهْرٍ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ يَصِحُّ الْإِبْرَاءُ مِنْ نَفَقَةِ الشَّهْرِ الْأَوَّلِ، وَلَمْ يَصِحَّ مِنْ نَفَقَةِ مَا سِوَى ذَلِكَ الشَّهْرِ، وَلَوْ قَالَتْ بَعْدَ مَا مَكَثَتْ شَهْرًا: أَبْرَأْتُكَ مِنْ نَفَقَةِ مَا مَضَى، وَمَا يَسْتَقْبِلُ يَبْرَأُ مِنْ نَفَقَةِ مَا مَضَى، وَمِنْ نَفَقَةِ مَا يَسْتَقْبِلُ بِقَدْرِ نَفَقَةِ شَهْرٍ، وَلَايَبْرَأُ زِيَادَةً عَلَى ذَلِكَ، كَذَا فِي الْفَتَاوَى الْكُبْرَى، وَ هَكَذَا فِي التَّجْنِيسِ وَالْمَزِيدِ، وَ لَوْ قَالَتْ: أَبْرَأْتُكَ مِنْ نَفَقَةِ سَنَةٍ لَا يَبْرَأُ إلَّا مِنْ شَهْرٍ إلَّا أَنْ يَكُونَ فَرَضَ لَهَا كُلَّ سَنَةٍ، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ.” ہندیہ(۱/۵۳۳)

(۸) “وَمِمَّا يَجِبُ عَلَى الْأَزْوَاجِ لِلنِّسَاءِ الْعَدْلُ وَالتَّسْوِيَةُ بَيْنَهُنَّ فِيمَا يَمْلِكُهُ وَالْبَيْتُوتَةُ عِنْدَهَا لِلصُّحْبَةِ وَالْمُؤَانَسَةِ لَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَهُوَ الْحُبُّ وَالْجِمَاعُ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.وَإِنْ رَضِيَتْ إحْدَى الزَّوْجَاتِ بِتَرْكِ قَسْمِهَا لِصَاحِبَتِهَا جَازَ وَلَهَا أَنْ تَرْجِعَ فِي ذَلِكَ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَة …وَلَوْ تَزَوَّجَ امْرَأَتَيْنِ عَلَى أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ إحْدَاهُمَا أَكْثَرَ أَوْ أَعْطَتْ لِزَوْجِهَا مَالًا أَوْ جَعَلَتْ عَلَى نَفْسِهَا جُعْلًا عَلَى أَنْ يَزِيدَ قَسْمَهَا أَوْ حَطَّتْ مِنْ الْمَهْرِ لِكَيْ يَزِيدَ قَسْمَهَا فَالشَّرْطُ وَالْجُعْلُ بَاطِلٌ وَلَهَا أَنْ تَرْجِعَ فِي مَا لَهَا، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ … وَإِذَا كَانَتْ لَهُ امْرَأَةٌ وَأَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ عَلَيْهَا أُخْرَى وَخَافَ أَنْ لَايَعْدِلَ بَيْنَهُمَا لَايَسْعَهُ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ لَايَخَافُ وَسِعَهُ ذَلِكَ وَالِامْتِنَاعُ أَوْلَى وَيُؤْجَرُ بِتَرْكِ إدْخَالِ الْغَمِّ عَلَيْهَا، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ. وَالْمُسْتَحَبُّ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَهُنَّ فِي جَمِيعِ الِاسْتِمْتَاعَاتِ مِنْ الْوَطْءِ وَالْقُبْلَةِ.”(ھندیہ :۳۴۰،۳۴۱)

فقط واللہ اعلم۔

۱۰ صفر /۱۴۴۳ھ

۱۸ ستمبر/۲۰۲۱ء

اپنا تبصرہ بھیجیں