لیکوریا کی نجاست دھونے کے بعد پانی گرتا ہے وہ پاک ہے یا ناپاک؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

اس مسئلہ میں براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں کہ عورت کے اعضائے مخصوصہ میں لیکوریا کی کچھ مقدار جم جاتی ہے

اگر ہم استنجاء کریں تو وہاں سے پانی ٹکرا کر جہاں جہاں چلے گا شلوار پر یا جسم پر تو کیا تمام جگہ ناپاک ہو جائے گی

ہر نمازکے ساتھ ایسا کرنا بہت مشکل لگ رہا ہے کہ ٹانگیں دھوئیں جائے اور ساری شلوار بھی بار بار دھوئیں جائے

پانی جو لیکوریا سے ٹکرا کر دوبارہ شلوار پر چلتا ہے اور بالکل صاف ہوتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی نجاست کی بو وغیرہ محسوس نہیں ہو رہی ہوتی ہے

نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر لیکوریا ہلکے پیلے رنگ کا ہو تو کیا حکم شرع ہوگا کہ اگر اس طرح ہلکے پیلے رنگ کے یا پیلے رنگ کے لیکوریا سے پانی ٹکرا کر شلوار یا ٹانگوں پر آۓ۔

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے سوال میں دو چیزیں پوچھی گئی ہیں:

1.لیکوریا سے پانی ٹکرا کر کپڑوں پر لگنے کا حکم۔

2.پیلے رنگ کے پانی دیکھنے کا حکم۔

دونوں سوالات کے بالترتیب جوابات ملاحظہ ہوں:

1.واضح رہے کہ کسی بھی چیز پر محض شک کی بنیاد پر ناپاکی کا حکم نہیں لگا سکتے،لہذا جب نجاست صاف کر لی جائے تو اس کے بعد اس شک میں نہیں پڑنا چاہیے کہ پانی کہیں اور گرے گا تو وہ جگہ نجس ہو گی۔البتہ اگر یقینی طور پر لیکوریا کپڑوں پر لگ جاۓ تو دھونا ضروری ہے ۔اگر نجاست ایک درہم کے برابر ہے اور ان کپڑوں میں نماز پڑھ لی تو نماز ہو جاۓ گی۔ایک درہم سے زیادہ میں نماز درست نہیں۔

2.اگر پاکی کےدنوں میں پیلے رنگ کی رطوبت آتی ہے تو اس صورت میں یہ حیض(ماہواری) نہیں ہے ،بلکہ یہ رطوبت صرف نجس ہے اور اس کے بعد وضو کرلینا کافی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

اليقين لايزول إلا بيقين مثله، اليقين لايزول بالشّكّ، اليقين لا يرفع بالشّكّ۔( موسوعة القواعد الفقهية :12/ 441)

مفہوم:

یقین شک وتردد سے زائل نہیں ہوسکتا۔ علما کا اجماع ہے کہ شک سے یقین میں کچھ فرق نہیں آتا۔

إذا اعتادت المرأة أن ترى أيام الطهر صفرة وأيام الحيض حمرة فحكم صفرتها يكون حكم الطهر حتى لو امتدت هى بها لم يحكم لها بالحيض فى شيئ من هذه الصفرة.

(الفتاوى التاتارخانية:474/1)

قال ابن حجر في شرحہ: وہي ماء أبیض متردد بین المذي والعرق یخرج من باطن الفرج الذي لایجب غسلہ، بخلاف ما یخرج مما یجب غسلہ فإنہ طاہر قطعاً، ومن وراء باطن الفرج، فإنہ نجس قطعاً ککل خارج من الباطن کالماء الخارج مع الولد أو قبیلہ۔

(شامی، الطہارۃ / باب الأنجاس515,1 )

فقط

واللہ اعلم باالصواب

14 محرم 1442 ھ

22اگست 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں