- اگر کوئی آدمی تین انگلیاں سر پر رکھے مگر کھینچے نہیں تو امام محمد کی رایت کے مطابق مسح ادا ہوجائے گا۔تاہم اس پر فتوی نہیں ہے۔
- اگر تین انگلیاں گیلی کیں مگر کھڑی رکھیں ،ان کو کھینچا نہیں تو اس سے بھی مسح ادا نہیں ہوگا۔
- انگلیاں گیلی کیں اور کھڑی کھڑی بقدر مقدارفرض کھینچ لیں تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مسح ادا نہیں ہوگا مگر امام زفر کے نزدیک ادا ہوجائے گا۔
- تین انگلیاں سر پر رکھیں اور انہیں کھینچا تو اس صورت میں علامہ ابن الھمام فرماتے ہیں کہ مسح ادا ہوجائے گا۔
- ایک یا دو انگلیاں رکھیں تو چونکہ ایک یا دو پر ہاتھ کا اطلاق نہیں ہوتا اس وجہ سے اگر کھینچ بھی لے تب بھی مسح ادا نہیں ہوگا۔
- انگلیوں کے پوروں سے مسح کیا اس طرح کہ پوروں سے پانی ٹپک رہا تھا تو جائز ہے کیونکہ جب پانی ٹپک رہا ہے تو پانی اس کی انگلیوں کے اطراف تک اترتا ہے پھر جب اسے کھینچے گا تو گویا اس نے نیا پانی لیا۔
- انگلی اور پوری ہتھیلی کے ساتھ مسح کیا تو ادا ہوجائے گاکیونکہ ہتھیلی فرضِ مقدار کو پہنچی ہوئی ہے ۔
- انگوٹھا اور شہادت کی انگلی کو سمیٹ کر ربع رأس تک کھینچا تو ان دونوں کو ملائیں تو تین انگلیوں کے برابر ہوجاتا ہے اور کھینچنے سے مقدارربع رأس کو بھی پہنچ گیا تو مسح ادا ہوجائے گا۔
- کسی نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھا رکھا لیکن کھینچا نہیں تو ادا نہیں ہوگا۔
- اگر ایک ہی انگلی سے تین بار مسح کیا ہر بار نیا پانی بھی لیاتو مسح جائز ہےمطلب یہ ہے کہ جب ربع رأس کے برابر مقدار مسح کرے۔
- ایک ہی انگلی کو دائیں بائیں اوپر نیچےگھماکر سر پر پھیرا گویا چار انگل برابر مسح ہواتو بعض کے نزدیک ادا ہوجائے گا اور بعض کے نزدیک ادا نہیں ہوگا (بہ یُفتی) علامہ شامی بھی یہی فرماتے ہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 99)
(قَوْلُهُ: وَلَوْ مَدَّ إلَخْ) أَيْ مَدَّ الْمَسْحَ حَتَّى اسْتَوْعَبَ قَدْرَ الرُّبُعِ. وَفِي الْبَدَائِعِ: لَوْ وَضَعَ ثَلَاثَةَ أَصَابِعَ وَلَمْ يَمُدَّهَا جَازَ عَلَى رِوَايَةِ الثَّلَاثِ أَصَابِعَ لَا الرُّبُعِ، وَلَوْ مَسَحَ بِهَا مَنْصُوبَةً غَيْرَ مَوْضُوعَةٍ وَلَا مَمْدُودَةً فَلَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَأْتِ بِالْقَدْرِ الْمَفْرُوضِ: أَيْ وَهَذَا بِالْإِجْمَاعِ كَمَا فِي النَّهْرِ، فَلَوْ مَدّهَا حَتَّى بَلَغَ الْقَدْرَ الْمَفْرُوضَ لَمْ يَجُزْ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَةِ خِلَافًا لِزُفَرَ، وَكَذَا الْخِلَافُ فِي الْإِصْبَعِ وَالْإِصْبَعَيْنِ إذَا مَدَّهَا وَبَلَغَ الْقَدْرَ الْمَفْرُوضَ اهـ مُلَخَّصًا: بَقِيَ مَا إذَا وَضَعَ ثَلَاثَ أَصَابِعَ وَمَدَّهَا وَبَلَغَ الرُّبُعَ قَالَ فِي الْفَتْحِ وَلَمْ أَرَ فِيهِ إلَّا الْجَوَازَ، وَتَعَقَّبَهُ فِي النَّهْرِ بِقَوْلِهِ قَدْ وَقَفْت عَلَى مَا هُوَ الْمَنْقُولُ يَعْنِي قَوْلَ الْبَدَائِعِ فَلَوْ مَدَّهَا إلَخْ.أَقُول: وَفِيهِ نَظَرٌ؛ لِأَنَّ الضَّمِيرَ فِي قَوْلِ الْبَدَائِعِ فَلَوْ مَدَّهَا إلَخْ عَائِدٌ عَلَى الْمَنْصُوبَةِ: أَيْ بِأَنْ مَسَحَ بِأَطْرَافِهَا لَا الْمَوْضُوعَةِ، عَلَى أَنَّهُ قَالَ فِي الْبَحْرِ لَوْ مَسَحَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ وَالْمَاءُ مُتَقَاطِرٌ جَازَ وَإِلَّا فَلَا؛ لِأَنَّهُ إذَا كَانَ مُتَقَاطِرًا فَالْمَاءُ يَنْزِلُ مِنْ أَصَابِعِهِ إلَى أَطْرَافِهَا، فَإِذَا مَدَّهُ صَارَ كَأَنَّهُ أَخَذَ مَاءً جَدِيدًا كَذَا فِي الْمُحِيطِ، وَذَكَرَ فِي الْخُلَاصَةِ أَنَّهُ يَجُوزُ مُطْلَقًا هُوَ الصَّحِيحُ. اهـ. قَالَ الشَّيْخُ إسْمَاعِيلُ: وَنَحْوُهُ فِي الْوَاقِعَاتِ وَالْفَيْضِ