“حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ مدینے میں”
“حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” نے خود “سن”51″ھ”میں حجاز کا سفر کیا اور پہلے”مدینہ طیبہ” تشریف لائے٫ان سب حضرات سے نرم گرم گفتگو ہوئ٫سب نے کھلے طور پر مخالفت کی-
“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی خدمت میں”
“امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”ام المومنین حضرت امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا” کے پاس تشریف لے گئے اور ان سب”حضرات” کی شکایت کی کہ” بیعتِ یزید” کے سلسلے میں”یہ سب” میری مخالفت کرتے ہیں-“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا” نےان کو نصیحت کی کہ میں نے سنا ہے کہ “آپ رضی اللّٰہ عنہ”ان پر” جبر کرتے ہیں اور قتل کی دھمکی دیتے ہیں- آپ کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے-“حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا یہ غلط ہے٫وہ سب حضرات” میرے نزدیک واجب الاحترام ہیں٫میں ایسا نہیں کر سکتا- لیکن بات یہ ہے کہ”شام و عراق اور عام اسلامی شہروں کے باشندے”یزید”کی بیعت پر متفق ہوچکے ہیں ” بیعتِ خلافت” مکمل ہو چکی ہے٫ اب یہ چند حضرات مخالفت کر رہے ہیں ٫جبکہ” مسلمانوں کا کلمہ ایک شخص پر” متفق ہو چکا ہے اور” ایک بیعت” مکمل ہو چکی ہے-اب “آپ رضی اللّٰہ عنہا”ہی بتائیں؟کیا میں اس ” بیعت” کو مکمل ہونے کے بعد توڑدوں؟
“ام المومنین”امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” نے فرمایا” یہ تو”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی رائے ہے “آپ” جانیں لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ”ان حضرات”پر تشدد نہ کیجئے٫احترام اور نرمی کے ساتھ ان سے گفتگو کیجیئے- “حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”نے کہا میں ایسا ہی کروں گا-(ابن کثیر)
“حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”مکہ میں”
“مدینہ سے حج کے لئے”امیر المومنین”مکہ مکرمہ” تشریف لائے- یہاں “اول”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ” کو بلایا اور فرمایا”اے ابن عم! تم نے تو کہا تھا مجھے ایک رات ایسی گزارنا پسند نہیں جس میں میرا کوئ امیر نہ ہو- میں نے اس امر کے پیش نظر”اپنے”بعد”یزید” کی خلافت”پر بیعت لے لی ہے کہ”میرے بعد” مسلمانوں میں افرا تفری نہ ہو٫ سب مسلمان اس پر متفق ہوچکے٫ تعجب ہے کہ “آپ” اختلاف کرتے ہیں٫ میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے جمع شدہ نظم کو خراب نہ کریں اور فساد نہ پھیلائیں-
“حضرت عبدااللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا”کہ آپ رضی اللّٰہ عنہ”سے پہلے بھی خلفاء تھے اور ان کے بھی اولاد تھی- “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کا بیٹا” کچھ انکے بیٹوں سے بہتر بھی نہیں ہے- مگر ا”نہوں نے” “اپنے بیٹوں کے لئے وہ رائے قائم نہیں کی جو “آپ رضی اللّٰہ عنہ” اپنے بیٹے کے لئے کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھا-
“آپ” مجھے تفریق ملت سے ڈراتے ہیں٫ سو”آپ رضی اللّٰہ عنہ” یاد رکھیں کہ میں “تفریق ملت”بین المسلمین” کا سبب ہرگز نہ بنوں گا٫میں مسلمانوں کا ایک فرد ہوں-اگر سب مسلمان کسی راہ پر پڑ گئے تو میں بھی ان میں شامل رہوں گا”-( تاریخ الخلفاء السیوطی)
اس کے بعد”حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”نے عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللّٰہ عنہ” سے بھی اس معاملے میں گفتگو فرمائ- “انہوں نے شدت سے انکار کیا کہ “میں اس کو کبھی قبول نہیں کروں گا-
پھر”عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ” کو بلا کر خطاب کیا٫انہوں نے”بھی ایسا ہی جواب دیا-
اجتماعی طور پر”معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کو صحیح مشورہ”
اس کے بعد “حضرت حسین بن علی رضی اللّٰہ عنہ٫ عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ اورچند اور “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”خود جاکر “حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”سے ملے اور ان سے کہا کہ”آپ” کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے”آپ”اپنے بیٹے “یزید”کے لئے”بیعت”پر اصرار کریں-ہم”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے سامنے تین صورتیں رکھتے ہیں جو “آپ”کے پیش روؤں” کی سنت ہے-
1-“آپ” وہ کام کریں” جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے کیا کہ اپنے بعد کے لئے کسی کو متعین نہیں فرمایا٫بلکہ “مسلمانوں” کی رائے عامہ” پر چھوڑ دیا-
2-“وہ کام کریں جو “ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے کیا کہ ایک ایسے شخص کا نام پیش کیا جو نہ”ان کے” خاندان کا ہے اور نہ”ان کا”قریبی رشتہ دار ہے اور”ان کی” اہلیت پر بھی سب مسلمان متفق ہیں-
3-“یا وہ صورت اختیار کریں جو”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” نے کی٫کہ اپنے بعد کا معاملہ چھ آدمیوں پر دائر کر دیا-
اس کے سوا ہم کوئ چوتھی صورت نہیں سمجھتے٫نہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں٫مگر”حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”کو اپنی اس رائے پر اصرار رہا کہ” اب تو”یزید”کے ہاتھ پر بیعت مکمل ہوچکی ہے٫اس کی مخالفت اب “آپ “لوگوں کو جائز نہیں ہے-
“سادات اہل حجاز کا “بیعتِ یزید” سے انکار-“
“امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کی کوششوں سے یہ معاملہ یہیں تک رہا کہ “شام و عراق “کے لوگوں نے”یزید” کی بیعت کو قبول کر لیا٫اور “ان لوگوں کی دیکھا دیکھی”یزید” پر “مسلمانوں”کی بڑی تعداد بحالت مجبوری ” مسلمانوں” کو انتشار اور تفرقہ سے بچانے کے لئےمجتمع ہوگئ-
مگر”اہل مدینہ٫خصوصا “حضرت عبداللہ بن زبیر٫ حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ اور”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ” “بیعت یزید”سے انکار پر ثابت قدم رہے اور کسی کی پرواہ کئے بغیر حق بات کا اعلان کرتے رہے٫کہ “یزید” ہرگز اس قابل نہیں کہ اس کو “خلیفہ المسلمین” بنایا جائے٫-
“حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کی وفات اور وصیت”
وفات سے پہلے”حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” نے “یزید” کو کچھ وصیتیں فرمائیں٫ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ میرا اندازہ ہے کہ “اہل عراق”حسین رضی اللّٰہ عنہ”کو تمہارے مقابلہ پر آمادہ کریں گے٫ اگر ایسا ہوا اور مقابلہ میں تم کامیاب ہوجاو تو ان سے درگزر کرنا٫اور ان کی” قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کا پورا احترام کرنا٫ان کا” سب مسلمانوں” پر پورا حق ہے-(تاریخ کامل ابن اثیر٫ص:1جلد 4) یہاں تک کہ “امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کی وفات ہو گئی اور” یزید بن معاویہ رضی اللّٰہ” نے ان کی جگہ لے لی-
(جاری ہے)
حوالہ:شہید کربلا-
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-