سوال:اگر ہمارے پیسے کہیں گم ہوجائیں اور ہم کسی کے اوپر نام بھی نہیں ڈال سکیں تو کیا ان پیسوں پر زکات کی نیت کرسکتے ہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکوٰۃ کا مال کسی مستحق کو زکوٰۃ کی نیت سے مالک بنا کر دیا جائے،مذکورہ صورت میں چونکہ گم شدہ مال زکوٰۃ کی نیت سےکسی کو مالک بنا کر نہیں دیا گیا،لہذا ان پیسوں پربعد میں زکوٰۃ کی نیت کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
فتوی نمبر : 144110201320
(دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
2۔ولا يجوز أداء الزكاة إلا بنية مقارنة للأداء أو مقارنة لعزل مقدار الواجب۔
(بنایہ شرح الھدایہ:3/ 311)
3۔ “أَمَّا شَرَائِطُ الرُّكْنِ فَأَنْوَاعٌ بَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدِّي وَبَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى وَبَعْضُهَا يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدَّى إلَيْهِ۔۔۔۔ أَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُؤَدِّي فَنِيَّةُ الزَّكَاةِ وَالْكَلَامُ فِي النِّيَّةِ فِي مَوْضِعَيْنِ فِي بَيَانِ أَنَّ النِّيَّةَ شَرْطُ جَوَازِ أَدَاءِ الزَّكَاةِ وَفِي بَيَانِ وَقْتِ نِيَّةِ الْأَدَاءِ، أَمَّا الْأَوَّلُ فَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ قَوْلُهُ: – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «لَا عَمَلَ لِمَنْ لَا نِيَّةَ لَهُ» وَقَوْلُهُ «إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» ؛ وَلِأَنَّ الزَّكَاةَ عِبَادَةٌ مَقْصُودَةٌ فَلَا تَتَأَدَّى بِدُونِ النِّيَّةِ كَالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ۔۔۔۔.
وَأَمَّا وَقْتُ النِّيَّةِ فَقَدْ ذَكَرَ الطَّحَاوِيُّ وَلَا تُجْزِئُ الزَّكَاةُ عَمَّنْ أَخْرَجَهَا إلَّا بِنِيَّةٍ مُخَالِطَةٍ لِإِخْرَاجِهِ إيَّاهَا كَمَا قَالَ فِي بَابِ الصَّلَاةِ وَهَذَا إشَارَةٌ إلَى أَنَّهَا لَا تُجْزِئُ إلَّا بِنِيَّةٍ مُقَارِنَةٍ لِلْأَدَاءِ الخ۔”
( بدائع الصنائع: 3/ 40)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب