کسی شخص کی والدہ سیدہوتوان کو زکوٰۃ دینےکا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

کسی ایسے شخص کو زکوۃ دی جا سکتی ہے جس کی والدہ کے بارے میں علم ہے کہ وہ سید ہیں اور والد کے متعلق نہیں پتا ،اور وہ حیات بھی نہیں ہیں،بہن بھائیوں کا آپس میں اختلاف ہے کہ ان والد سید تھے یا غیر سید۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

واضح رہے کہ نسب میں اصل اعتبار والد کا ہوتا ہے اگر والد سید ہیں تو اولاد بھی سید ہوگی اس صورت میں ان کو زکوۃ دینا جائز نہیں ۔اگر والد سید نہیں ہے تو زکوٰۃ دینا درست ہے۔

زکوٰۃ چونکہ ایک اہم فریضہ ہے ،اس میں احتیاط کے دامن کو تھامنا لازم ہے،مذکورہ صورت میں چونکہ شک ہے اس لیے احتیاط پر عمل کرتے ہوئے جب تک ان کے سید نہ ہونے کا علم نہ ہوجائے اس وقت تک زکوٰۃ دینے سے احتراز کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) “سادات بنو ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ان کو ہدیہ پیش کرنا نہایت موجبِ اجر و ثواب ہے،خاص طور پر اگر وہ ضرورت مند ہوں تو ہدایا کے ذریعے ان کی اعانت سب مسلمانوں کو کرنی چاہیے”

(فتاویٰ عثمانی:٢/ ١٣٨،مکتبہ معارف القرآن کراچی)

(۲)”وَلَايُدْفَعُ إلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَبَّاسٍ وَآلُ جَعْفَرِ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ الْحَارِثِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَيَجُوزُ الدَّفْعُ إلَى مَنْ عَدَاهُمْ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَذُرِّيَّةِ أَبِي لَهَبٍ؛ لِأَنَّهُمْ لَمْ يُنَاصِرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ. هَذَا فِي الْوَاجِبَاتِ كَالزَّكَاةِ وَالنَّذْرِ وَالْعُشْرِ وَالْكَفَّارَةِ فَأَمَّا التَّطَوُّعُ فَيَجُوزُ الصَّرْفُ إلَيْهِمْ كَذَا فِي الْكَافِي، وَكَذَا لَايُدْفَعُ إلَى مَوَالِيهِمْ كَذَا فِي الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْكَنْزِ. وَيَجُوزُ صَرْفُ خُمُسِ الرِّكَازِ وَالْمَعْدِنِ إلَى فُقَرَاءِ بَنِي هَاشِمٍ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ.”

(فتاویٰ ہندیہ: كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں