سوال:اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ !
آج کل جو بالوں میں مصنوعی بال لگائے جاتے ہیں اس کے مختلف طریقے فی زمانہ رائج ہیں۔مثلاً:کبھی تو ان کو کلپس کے ذریعے سے لگایا جاتا ہے جو اسی میں ہی لگے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی موتیوں کے ذریعے سے لگائے جاتے ہیں، اس طرح کہ وہ موتیاں اپنے اصلی بالوں میں پرو کر دھاگے کی مدد سے دیگر مصنوعی بال انہی موتیوں کے ساتھ منسلک کیے جاتے ہیں۔ اس کے لگانے کا کیا حکم ہے۔ نیز اس کے اوپر غسل کا کیا حکم ہے بس لا جواب عنایت فرمائیں ۔
بینوا و تؤجروا
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مصنوعی بال (ہئیر اکسٹیشن) انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنے ہوئیے ہوں تو اس کا لگوانا قطعاً جائز نہیں، بنص حدیث حرام ہے۔اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ آج کل اکثر ایکسٹینشن انسانی بالوں کے بنے ہوئے ہی ملتے ہیں۔
البتہ اگر وہ انسان اور خنزیر کے بالوں کے علاوہ کسی اور دھات/میٹریل کے بنے ہوئے ہوں تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو تو لگوانے کی گنجائش ہے۔
تاہم سوال میں مذکورہ دونوں طریقوں کاحکم الگ الگ ہے۔
پہلا طریقہ جس میں ایکسٹینشن کو کلپس کے ذریعے لگایا جاتا ہے تو فرضی غسل کے لیے اس کو الگ کرنا ضروری ہے اور اس کو الگ کرنا بھی کوئی مشکل نہیں،لہذا اسی کے لگے ہوئے ہونے کے ساتھ اگر کسی نے فرضی غسل کیا تو غسل درست نہ ہوگا ۔
جبکہ دوسرا طریقہ کہ جس میں موتیوں کے ذریعے اصلی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال منسلک کئے جاتے ہیں تو چونکہ اس میں موتیوں کو اصلی بالوں میں پرو کر پلاس نماں ایک آلے کے ذریعے سے ان موتیوں کو کھس کر چپکا دیا جاتا ہے جس سے ظاہرا یہی معلوم ہوتا ہے کہ بالوں کے اس حصے میں جس پر موتیاں لگی ہوئی ہیں پانی نہیں پہنچ پائے گا۔ لہذا ایسے ایکسٹینٹش لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب