سوال ۔ اگر غلطی سے کبھی کلمہ کفر زبان سے نکل جائے
یا غلطی سے کلمہ کفر تحریر کر دیا جائے
اور اس پر بے حد ندامت بھی ہو اور پریشانی بھی ہو تو کیا اس صورت میں بھی تجدید نکاح لازم آتی ہے
کیونکہ گھر میں دو مرد موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ایک اور دو عورتیں
تجدید نکاح میں بہت مشکل ہو رہی ہے وہ ٹیچر ہے پڑھانے میں شیطان کے متعلق گفتگو کر رہی تھی کہ شیطان گمراہ کرتا ہے اور بورڈ میں لکھوارہی تھی اس طرح غلطی سے قران کا لفظ لکھ دیا تھا یاد رہے کہ یہ کلمہ کفر بالکل غلطی سے بولا اور لکھا گیا ہے
اور اپنے ارادے کو بالکل بھی دخل نہیں تھا اس میں۔۔
الجواب باسم ملھم الصواب
اگرغلطی سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے (مثلاً کہنا کچھ اور چاہ رہاہو اور زبان سے کفریہ جملہ نکل جائے) تو اس کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا،لہذا مذکورہ صورت میں ایمان اور نکاح کی تجدید لازم نہیں ہوگی۔ البتہ احتیاطاً استغفار کرلینا چاہیے۔
چنانچہ شامی میں ہے:
“ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل”.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر “(1/ 687):
“فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق”.
“الدر المختار ” (4/ 224):
“(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع”.
قال ابن عابدین رحمه الله:
” قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ”.