سوال: سوال: السلام علیکم
آج کل کال سینٹر کے نام سے اکثر نوجوان لڑکے بیرون ملک آن لائن چیزوں کو فروخت کرنے کام کر رہے ہیں۔
اس کے حوالے سے یہ معلوم کرنا ہے کہ بیرون ملک کسٹمر سے رابطہ کرنے میں وہ اپنا اصل نام نہیں بتاتے بلکہ وہ کسٹمر جس ملک کا ہوتا ہے اس کے مطابق کوئی نام بتاتے ہیں مثلا: امریکہ میں رہنے والے کو اپنا نام ڈیوڈ وغیرہ بتائیں گے۔
یہ ان کی جاب کے لئے ضروری ہوتا ہے، اگر وہ اپنا اصل نام بتادیں تو باہر کے لوگ ان سے ڈیل نہیں کرتے۔
پوچھنا یہ ہے کہ غلط نام بتا کر اس طور پر کاروبار کرنا درست ہے یا نہیں؟ اس کام سے حاصل ہونے والی کمائی حلال ہوگی یا حرام؟
نیز جو کمپنیاں کال سینٹر کا کام کر رہی ہیں جن میں کئی لوگ غلط نام بتا کر کاروبار کرتے ہیں ان کمپنیوں کا کیا حکم ہوگا؟
واضح ہو کہ چیز کے بارے میں بالکل غلط بیانی نہیں کرتے، کاروبار کرنے کے لئے بس نام غلط استعمال کرتے ہیں۔
الجواب باسم ملھم الصواب
موجودہ زمانہ میں کال سینٹر کا کام عام طور پر کمیشن ایجنٹ والا کام ہے، کال سینٹر والے بیرون ملک مختلف کمپنیوں کی اشیا کی تشہیر کرکے اس کو فروخت کرتے ہیں، اور وہ اشیا کمپنی گاہک کو پہنچادیتی ہے، اگر یہ کام جائز اشیا کا ہو، اور اس کام میں کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے تو کمیشن پر اس طرح کام کرنا جائز ہے،
نام کے حوالے سے یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ جس طرح کچھ لوگوں کے دو نام ہوتے ہیں اس طرح کال سینٹر کے ملازمین اپنا کاروباری نام بھی رکھ لیں اور پھر ملازمت کے دوران وہ نام استعمال کریں۔
(۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال : أرجو أنہ لا بأس بہ ، وإن کان في الأصل فاسدًا لکثرۃ التعامل ، وکثیر من ہذا غیر جائز فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام ۔
(۹/۸۷ ، کتاب الإجارۃ ، مطلب في أجرۃ الدلال)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب