عام طور پر مشہور ہے کہ “مسجد اقصیٰ” کی پہلی تعمیر “حضرت داؤد علیہ السلام” اور” حضرت سلیمان علیہ السلام” نے کی لیکن یہ بات صحیح نہیں-بخاری شریف میں “حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ” کی صحیح روایت موجود ہے کہ “بیت اللہ اور مسجد اقصیٰ” کی تعمیر میں”40 سال “کا فاصلہ ہے-
بیت اللہ کی تعمیر ابتدائے آفرینش میں “حضرت آدم علیہ السلام”نے بحکمِ الہیٰ کی تھی-( حضرت ابراھیم علیہ السلام نے انہی قائم کردہ بنیادوں پر تعمیر نو کی تھی-)اس حساب سے بیت المقدس کی اولین تعمیر سیدنا “حضرت داؤد علیہ السلام اور
” حضرت سلیمان علیہ السلام” سے بہت عرصہ قبل ہو چکی تھی-اس طرح یہودیوں کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہو جاتاہے کہ یہاں سب سے پہلے “ہیکلِ سلیمانی” کی تعمیر”حضرت سلیمان علیہ السلام” نے کی تھی- البتہ یہ ضرور ہے کہ اسکی تعمیرِ نو “حضرت سلیمان علیہ السلام” نے کی ہے-
القدس کی جو تاریخ آج کی انسانی دنیا کو معلوم ہے اس کے مطابق یہاں کنعانیو اور یبوسیوں کے دور سے “ہیکل” تعمیر ہوتے چلے آرہے ہیں-“حضرت سلیمان علیہ السلام” کے بعد بھی یہاں کئ مرتبہ نئ تعمیرات ہوئیں ہیں بعض مرتبہ زلزلے اور حملہ آوروں کی لوٹ مار سے مکمل انہدام کے بعد بلکل نئ تعمیر ہوئ ہے جو کبھی عیسائیوں اور کبھی مسلمانوں نے بھی کی ہے-تو یہودی کس کی وراثت کا دعویٰ کرتے ہیں- ایک طویل عرصہ تو ایسا بھی گزرا ہےکہ یہاں تباہ شدہ ملبے کے علاوہ کچھ نہ تھا-
اسکی تفصیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے جب ان کی بد اعمالیوں پر سزا دینی چاہی تو چٹھی صدی قبل از مسیح کے اوئل میں بابل کے حکمران بخت نصر نے یروشلم کو فتح کرکے پیوند زمیں کردیا اور یہودیوں کے مذہبی صحائف نذر آتش کرکے”1 00000(ایک لاکھ) یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا-“سورہء بنی اسرائیل” میں اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے-یہود کے عذاب الہٰی میں گرفتار رہنے کے اس زمانے میں تقریباً “ڈیڑھ صدی” تک یہاں سوائے ویرانی کے کچھ نہ تھا-
اس کے بعد اہل مصر٫فارسیوں اور رومیوں کی حکومتوں نے مختلف ادوار یہاں گزارے اور ان کے دور میں یہاں تعمیرات بنتی اور اجڑتی رہیں٫ مختلف اقوام کی حکومتوں کی-
اس طویل تاریخ کے ہوتے ہوئےیہودی نہ جانے کس طرح اس جگہ پر دعویٰ کرتے ہیں؟انکا یہ بیجا دعویٰ انکی اس تاریخی بد بختی کا حصہ ہے جسکی بناء پر وہ مختلف اقوام عالم کو اپنا دشمن بنا کران سے ماریں کھاتے رہے اور اب مسلمانوں کی مخالفت مول لے کر اپنے لئے فیصلہ کن شکست کی بنیاد رکھ رہے ہیں-(جاری ہے)
حوالہ: “اقصیٰ کے آنسو” (فلسطین کا ایک عاشق)
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان