سوال: مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ بہو پر ساس سسر کی خدمت نہیں تو جب انہیں ضرورت ہو تو کون کرے گا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہمدردی وایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے۔
خانگی زندگی کے وہ امور جو شرعاً لازم وضروری نہیں لیکن ان کا کرنا بہرحال ثواب سے خالی نہیں، ان میں سے ایک امر بہو کی اپنے ساس، سسر کی خدمت ہے، گو بہو پر ان کی خدمت شرعاً واجب نہیں مگر بہو کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ شوہر کے والدین کو اپنے والدین کی طرح سمجھے اور ان کی تعظیم وتکریم اور خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑے، خاص طور پر جبکہ ان کو خدمت کی ضرورت بھی ہو۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:
“جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابعداری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہو کر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دیں، جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کر دو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی”۔
(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب