السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب : میں اپنے رشتہ داروں میں ایک جگہ نکاح میں شرکت کے لیے گیا ،تو وہاں جو قاری صاحب تھے ،شاید پہلی مرتبہ نکاح پڑھا رہے تھے انہوں نے خطبہ پہلے نہیں پڑھا بلکہ دلہن کے وکیل( والد) سے صرف یہ پوچھا کہ :آپنے مریم بنت یوسف کو حماد کے نکاح میں دیا ؟انہوں نے کہا :جی دیا۔اس کے بعد حماد کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ :آپنے مریم کو اپنے نکاح میں قبول کیا ؟حماد نے کہا: جی میں نے قبول کیا۔ اس کے بعد امام صاحب نے خطبہ دیا اورپھر دعا کرا دی ۔دولہے کے بھائی کو شک ہورہا ہے کہ نکاح درست ہوا یا نہیں ؟ اگر سہولت ہو تو جواب جلدی عنایت فرما دیجئے۔
سائل :متعلق از مفتی حارث صاحب
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہےکہ نکاح کے درست ہونے کےلیےاصل شرط یہ ہے کہ کم سےکم دو مردیا ایک مرد ،دو عورتوں کے سامنےایجاب وقبول کیا جائے،اور اس موقع پر جو خطبہ پڑھا جاتا ہے وہ سنت عمل ہے ،نکاح کےلیے شرط نہیں ،لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ نکاح خواہ نے گواہوں کے سامنے دونوں کے درمیان ایجاب وقبول کروا لیا ،اس لیےنکاح منعقد ہوگیا ،اب کسی شک وشبہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔البتہ سنت طریقہ یہ تھا کہ پہلے خطبہ پڑھاجاتا اورپھر مہر کو واضح کرکے ایجاب وقبول کروایاجاتا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 9)
وينعقد أي النكاح أي يثبت ويحصل انعقاده بالإيجاب والقبول (قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح فلا يتصور تقديم القبول، فقوله: تزوجت ابنتك إيجاب وقول الآخر زوجتكها قبول خلافا لمن قال إنه من تقديم القبول على الإيجاب وتمام تحقيقه في الفتح۔
الدر المختار (3/ 8)
ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول۔
الدر المختار (3/ 21)(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر. (قوله: وشرط حضور شاهدين) أي يشهدان على العقد، أما الشهادة على التوكيل بالنكاح فليست بشرط لصحته كما قدمناه عن البحر، وإنما فائدتها الإثبات عند جحود التوكيل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد رفیق غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
9/ رجب 1441
5/مارچ/ 2020