“پہلی فصل”
“نور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بیان میں”
” پہلی روایت”
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا “فداک ابی و امی”مجھکو خبر دیجئے کہ سب ا9شیاء سے پہلے اللہ تعالٰیٰ نے کونسی چیز پیدا کی٫”آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اللّٰہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی صل اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے نور کے فیض سے پیدا کیا-پھر وہ نور قدرت الہیہ سےجہاں اللّٰہ تعالٰی کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہلوح تھی نہ قلم تھا اور نہ بہشت تھی نہ دوزخ اور نہ آ سمان تھا نہ زمین نہ فرشتہ نہ جن اور نہ انسان٫ نہ سورج تھا نہ چاند-
” دوسری روایت”
“حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” کہ بیشک میں حق تعالٰی کے نزدیک “خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہو چکاتھا اور حضرت آ دم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر ہی میں تھے(یعنی انکا پتلا بھی تیار نہ ہوا تھا)
“تیسری روایت”
“ابی سہل قطان”سہل بن صالح ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ”میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء علیہم السلام پر تقدم کیسے ہو گیا؟جبکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سبکے آ خر میں مبعوث ہوئے ہیں”
انہوں نے جواب دیا” کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے انکی پشتوں میں سے انکی اولاد کو(عالم میثاق میں) نکالا اور ان سب سے یہ اقرار کیا کہ”کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں” تو سب سے اول (جواب میں)بلی (یعنی کیوں نہیں) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اور اسی لئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے تقدم ہے گو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آ خر میں مبعوث ہوئے-یہ میثاق “الست بربکم”ہے
” یارب صل و سلم دائما ابدا”
علی حبیبک خیر الخلق کلھم”
“تیسری روایت”
ابن الجوزی نے اپنی کتاب سلوہ الاحزان میں ذکر کیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے جب حضرت بی بی حوا سے قربت کرنی چاہی تو انہوں نے اپنا مہر طلب کیا- آدم علیہ السلام نے دعا کی “کہ اے رب میں انکو مہر میں کیا دوں” ارشاد فرمایا”اے آدم میرے حبیب محد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر 20 مرتبہ درود شریف بھیجو” چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا-
“چوتھی روایت”
ایک طویل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” کہ میں اپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں-
“پانچویں روایت”
مشکوتہ میں صحیح بخآری سے روایت ہے کہ تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت لکھی ہے”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تمکو بھیجا ہے امت کے حال کا گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور گروہ امیین کی پناہ بناکر(مراد اس سے امت محمدیہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بندے اور پیغمبر ہیں-میں نے آپکا نام متوکل رکھا ہے-نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدخلق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں٫ نہ بازاروں میں شور مچاتے پھرتے ہیں اور برائ کا بدلہ برائ نہیں کرتے بلکہ معاف کر دیتے ہیں-آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی وفات نہیں دینگے یہاں تک کہ آپ کی برکت سےراہ کج یعنی کفر کو درست یعنی مبدل بہ ایمان نہ کردیں کہ لوگ کلمہ پڑھنے لگیں اور اس کلمہ کی برکت سے نابینا آنکھوں کو ناشنوا کانوں کواور سربستہ دلوں کو کشادہ نہ کردیں-
“چھٹی روایت”
اسمیں مزید یہ لکھا ہوا ہے کہ “مکہ مکرمہ”انکی جائے ولادت ہے’ مدینہ منورہ انکا مقام ہجرت ہے اور مرکز سلطنت ملک شام ہے-
” ساتویں روایت”
مشکوتہ میں ترمذی سے بروایت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مروی ہےکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہونگے-
” یا رب صل و سلم دائما ابدا”
“علی حبیبک خیر الخلق کلھم”
(جاری ہے)
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان