سوال: ایک لڑکی کی شادی کو سات سال ہوگئے ہیں جب سے شادہ ہوئی ہے وہ کسی نامحرم کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتی تھی اس کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔
لیکن ابھی چار پانچ مہینوں سے اس کی نظر اٹھنے لگی ہے اور خوبصورت لڑکوں کو بار بار دیکھتی ہے تو وہ پوچھ رہی ہے کہ کیا یہ ہمارے گناہوں کی نشانی ہے یا خاوند سے ملنے والی توجہ میں کمی کی وجہ سے ہے؟
اس کی نظر کو حفاظت میں رکھنے کا کیا حل ہے رہنمائی فرمادیں اب اسے لگتا ہے کہ وہ غلطی پر ہے جو لڑکوں کو دیکھ کر سوچتی ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
“قُلْ لِلّمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔
و قل للمومنت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن۔۔۔۔الخ” (النور ۳۰)
ترجمہ: ’’(اے نبی ﷺ) مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں… یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ خوب خبر رکھتا ہے ان کے کاموں کی اور ایمان والی عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں۔۔۔۔‘‘
اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں دونوں کو مخاطب کر کے نظر کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے، جس کی تفسیر میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ “غض بصر” تزکیہ قلوب اور حفاظت ایمان کے لئے بہت ضروری ہے نیز نظروں کی حفاظت سے قلب میں ایمان کی حلاوت محسوس ہوتی ہے۔
جبکہ آنکھوں کی بے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے اور یہ چیز بد کاری کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔
اسی لئے حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا:
” بد نظری آنکھوں کا زنا ہے۔”
نیز فرمایا:
“بد نظری شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے”( جس سے وہ ایمان والے بندوں کا شکار کرتا ہے اور انہیں گناہوں میں مبتلا کرتا ہے)
ان دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بد نظری بہت بڑا گناہ ہے جو براہ راست ایمان پر حملہ کرتا ہے اس لئے اس سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے۔
یہ سوچنا کہ یہ گناہ شوہر کی عدم توجہ کی وجہ سے ہورہا ہے یہ محض شیطانی فریب ہے اس لئے سب سے پہلے تو دو رکعت نفل صلوة التوبہ کی نیت سے ادا کریں اور اللہ تعالی سے خوب ندامت و گریہ و زاری کے ساتھ اپنی اس غلطی کی معافی مانگیں نیز اللہ تعالی سے اس گناہ کو بالکلیہ ترک کرنے پر مدد طلب کریں، ان شاء اللہ ضرور حفاظت ہوگی۔
حضرت جنید بغدادیؒ سے کسی نے پوچھا کہ میں اپنی آنکھوں کوبرائی سے نہیں بچا سکتا۔ کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟
فرمایا:
’’بس یہی کہ تو اس بات کو ذہن نشین کر لے کہ جس قدر تو کسی کو دیکھ سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ حق تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (نسخۂ کیمیا ص ۱۰۱۴)
1۔عن أَبي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال : ( إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ ، فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ ، وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي ، وَالفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ) .
رواه أحمد (10920)
2۔عن أبي أمامة رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما من مسلم ینظر إلی محاسن امرأة ثم یغض بصرہ إلا أخلف اللہ لہ عبادة یجد حلاوتہا (تفسیر ابن کثیر سورہٴ نور)
3۔عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن النظر سھم من سھام إبلیس، مسموم من ترکہ مخافتي أبدلتُہ إیمانًا یجد حلاوتَہ في قلبہ۔
(تفسیر ابن کثیر سورہٴ نور)
فقط۔ واللہ الموفق