سوال: والد صاحب کے نام گھر ہے ان کی 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں، والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، بچے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنی زندگی میں لکھ دیں کہ یہ گھر پانچوں بہن بھائی کے نام ہے۔
بڑے بیٹے کی بیٹیاں ہیں باقی بچوں کے یہاں بیٹے بیٹیاں سب ہیں۔
بڑے بیٹے نے دوسری منزل پہ مکان اپنے پیسوں سے بنوایا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مکان تو میرا ہوگیا تو کیا یہ دوسری منزل ترکہ میں شامل ہو گی یا بھائی کی ملکیت شمار ہوگی؟
تنقیح: کیا بڑے بھائی نے دوسری منزل پہ گھر والد صاحب کی اجازت سے بنوایا تھا؟
جواب تنقیح: جی والد، والدہ سب کی اجازت سے بنوایا تھا
الجواب باسم ملھم الصواب
پہلی بات تو یہ کہ مورث کی زندگی میں اس سے جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔
اس مسئلہ کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:
1- اگر بیٹے نے منزل بنانے سے پہلے یہ صراحت کر دی ہو کہ اس منزل کی تعمیر میں رقم بطورِ قرض لگا رہا ہوں تو ایسی صورت میں اس کو اس کی صرف وہی رقم واپس ملے گی جو اس نے اس وقت لگائی تھی۔
2- اگر بیٹے نے یہ صراحت کر دی ہو کہ میں اپنے لیے یہ جگہ بنا رہا ہوں اور اس میں والد کی اجازت بھی شامل تھی تو اس صورت میں وہ اپنی اس عمارت کا موجودہ مالیت کے مطابق مالک ہو گا۔
3- اگر بیٹے نے کوئی صراحت نہ کی ہو تو یہ منزل والد کی ہو گی اور اس کو اس کے بدلے کوئی رقم نہ ملے گی.
1۔لأن الترکۃ في الاصطلاح ما ترکہ المیت من الأموال صافیًا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال۔ (شامي / کتاب الفرائض ۶؍۷۵۹ دار الفکر بیروت، ۱۰؍۴۹۳ زکریا)
2۔وشروطہ ثلاثۃ: موت مورث حقیقۃ أو حکمًا۔ (مجمع الأنہر ۴؍۴۹۴)
3۔أما بیان الوقت الذي یجري فیہ الإرث قال مشائخ بلخ: الإرث یثبت بعد موت المورث۔ (البحر الرائق ۹؍۳۶۴)
فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم