سوال ۔ روزے میں اگر ظھر اور عصر میں صرف فرض وضو کیا جائے اس ڈر سے کہ پانی اندر نہ جائے تو کیا یہ درست ہے ؟
الجواب حامدا ومصلیا ـ
وضو کے چار فرض ادا کرنے سے وضو تو ہوجائے گا لیکن سنت کے موافق نہ کرنے کی وجہ سے سنت کا ثواب نہیں ملے گا لہذا سنت ترک نہیں کرنی چاہیے ۔
عام حالات میں وضو کی سنتیں یہ ہے کہ تین بار کلی کرے اور تین بار ناک میں پانی ڈالے ، کلی کرنے سے مراد یہ ہے کہ منہ میں پانی ڈال کر اچھی طرح حلق تک پہنچاۓ یعنی غرغرہ کرے اور ناک میں پانی ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ پانی نرم حصے تک اچھی طرح پہنچائے ۔ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا سنت ہے ۔
البتہ روزے میں یہ مبالغہ کرنا ممنوع ہے روزے میں صرف کلی کرے کہ حلق تک پانی نہ پہنچے اور ناک میں ہلکے سے پانی ڈالے ، کھینچے نہیں اور اگر انگلی تر کرکے ناک کو اندر سے تر کر لے تو یہ بھی کافی ہے ۔
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: قوله: (وفرض الغسل غسل فمه وأنفه وبدنه)…وأما ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة ،لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة ؛لقوله تعالى :”وإن كنتم جنبا فاطهروا“ [المائدة: 6]…ولهذا وجبت المضمضة والاستنشاق في الغسل؛ لأنه لا حرج في غسلهما ،فشملهما نص الكتاب من غير معارض ،كما شملهما قوله صلى الله عليه وسلم : «تحت كل شعرة جنابة، فبلوا الشعر وانقوا البشرة». رواه الترمذي من غير معارض. والبشرة ظاهر الجلد بخلافهما في الوضوء؛ لأن الواجب فيه غسل الوجه ولا تقع المواجهة بداخلهما.( البحر الرائق :1/48،47)
فی الھندیۃ: والترتيب في المضمضة والاستنشاق سنة عندنا. كذا في الخلاصة. والمبالغة فيهما سنة أيضا. كذا في الكافي وشرح الطحاوي إلا أن يكون صائما. كذا في التتارخانية ،وهي في المضمضة بالغرغرة. كذا في الكافي ،وفي الاستنشاق أن يضع الماء على منخريه ويجذبه حتى يصعد إلى ما اشتد من أنفه. كذا في المحيط.ٍ(الفتاوى الهندية :1/ 202