سوال: اکثر لوگ دن کے وقت روزہ رکھنے کی وجہ سے جب منہ خشک ہوجاتا ہے تو ٹھنڈے پانی سےکلی کرتے رہتے ہیں تو روزے پہ اس کا کیا اثر پڑتا ہے ؟
الجواب حامدا ومصلیا
روزے کی حالت میں گرمی کے اثر کو کم کرنے کے لیے اور جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے جس طرح ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا یا کپڑا بھگوکر جسم پر ڈالنا جائز و درست ہے اسی طرح جسم کے اندر پانی داخل کیے بغیر ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کلی کرنا بھی جائز ہے بشرط یہ کہ احتیاط کے ساتھ کلی کی جائے اور کلی میں مبالغہ نہ کیا جائے تاکہ حلق میں نہ جائے امام یوسف کے نزدیک صرف ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے بھیگا ہوا کپڑا پہننا، کلی کرنا ،ناک میں پانی ڈالنا یا غسل کرنا بلا کراہت جائز ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمھما اللہ تعالی کے نزدیک مکروہ ہے کیونکہ یہ روزے کے مقصد کے منافی ہے ـ فتوی امام ابوسف کے قول پر ہے ۔
کذا فی الھندیۃ:
عن ابی حنیفۃ الا کرہ الاغتسال وصب الماء علی الراس والاستنقاع فی الماء والتلفف بالشرب المبلول وقال ابو یوسف لایکرہ وھوالاظھر کذا فی محیط السرخسی (عالمگیری مصری کتاب الصوم باب ثالث ج ۱ ص ۱۸۶۔ط۔س۔ج۲ص۱۹۹)
لا تکرہ حجامة وتلفف بثوب مبتل ومضمضة او استنشاق او اغتسال للتبرد عندالثانی وبہ یفتی ۔ وفي رد المحتار قولہ و بہ یُفتی لأن النبیﷺ صب علی رأسہ الماء وھو صائم من العطش أو من الحر۔ رواہ أبوداؤد وکان ابن عمرؓ یبل الثوب ویلفہ علیہ وھو صائم ولأن ھذہ الأشیاء بھا عون علی العبادۃ ودفع الضجر الطبیعی وکرھھا أبوحنیفۃ ؒلما فیھا من إظھار الضجر في العبادۃ کما في البرھان۔ امداد الفتاوی ۱/۱۸۳۔ الدر المختار کتاب الصوم باب ما یفسد الصوم وما لایفسدہ مکتبہ زکریا دیوبند ٣،٣٩٩کراچی ۔
علامہ طحطاوی نے صراحت کی ہے کہ وضو کرنا نہ ہو تب بھی روزے دار کو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔
ولا یکرہ لہ المضمضة ولا الاستنشاق وقد فعلھا لغیر وضوء ۔(الطحطاوی علی مراقی الفلاح : ٤٨٢)
رسول اللہﷺ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پیاس یا شدت کی وجہ سے اپنے آپ پر پانی بہایا ہے : ’’ لقد رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالعرج یصب علی رأسہ وھو صائم من العطش أومن الحر‘‘ (ابوداؤد ، کتاب الصوم ، باب الصائم یصب علیہ الماء من العطش ، حدیث نمبر : ۲۳۶۷)
یہ بات واضح رہے کہ روزے کا اصل مقصد رب کے سامنے اپنی عاجزی دکھانا ہے اس میں پیاس سے بے صبری کا اظھار روزے کے معنی کے منافی ہے ؛ لہذا اگر کوئی روزے میں پیاس کی شدت میں بے صبری کا اظھار کرکے بار بار کلی کرے تو مکروہ ہوگا لیکن اگر بے صبری کا اظھار نہ کرے بلکہ اپنی گرمی دور کرنے اور عبادت میں نشاط ویکسوئی پیدا کرنے کے لیے کلی کرے یا ٹھنڈک کے لیے غسل کرے تو اس صورت میں کراہت نہیں ۔ ھذا ھو وجہ التوفیق بین قولی الامام ابی یوسف و الامام ابی حنیفہ رحمھما اللہ تعالی۔
عن عبد اﷲ بن أبي عثمان قال: رأیت ابن عمر وھو صائم یبل الثوب ثم یلقیہ علیہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ، کتاب الصیام، ماذکر في الصائم یتلذذ بالماء، مؤسسۃ علوم القرآن ۶/۱۸۶، رقم: ۹۳۰۳)
ولایکرہ لہ المضمضۃ والاستنشاق وقد فعلھما لغیروضوء ولا الإغتسال ولا التلفف بثوب متبل قصد ذلک للتبرد ودفع الحر علی المفتی بہ وھو قول أبي یوسف لأن النبی صلی ﷲ علیہ وسلم صب علی رأسہ الماء وھو صائم من العطش أومن الحر رواہ أبو داؤد وکان ابن عمر رضی اﷲ عنھما یبل الثوب ویلفہ علیہ وھو صائم ولأن بھذہ عونا علی العبادۃ ودفعا للضجر الطبیعی وکر ہھا أبو حنیفۃؒ لما فیہ من إظہار الضجر في إقامۃ العبادۃ۔(مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصوم، فصل فیما یکرہ للصائم، دارالکتاب دیوبند ص:۶۸۲)
ویکرہ عند الإمام الاستنشاق للتبرد وصب الماء علی رأسہ وکذا الاغتسال والتلفف بثوب مبلول لما فیہ من إظہاراالتضجر في إقامۃ العبادۃ ولا یکرہ ذالک عند أبي یوسف لورود الأثر وہذہ الأشیاء عون علی العبادۃ ودفع للتضجر الطبیعی وبہ یفتی۔(مجمع الأنہر، کتاب الصوم، باب موجب الفساد، قبل فصل یباح الفطر الخ،دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/۳۶۴-۳۶۵)۔