ایک آدمی درخت کاٹ رہا تھا جس سے لکڑیاں نیچے گررہی تھیں تو ایک آدمی وہاں سے گزرا ،اس پر لکڑی گری اور وہ مر گیا اب درخت کاٹنے والے پر دیت اور کفارہ کا کیا حکم ہے؟
سائل:عمر محمود
﷽
الجواب حامداومصلیا
اگر درخت کاٹنے والاشخص اپنی ملکیت میں یا اجازت سے درخت کاٹ رہا تھااور اس دوران تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی تھیں اور خطرہ سے مکمل آگاہی کا مناسب انتظام کیا تھا پھر درخت کاٹتے ہوئے لکڑی کسی انسان پر گری اور اس سے اس کی موت واقع ہوگئی تو درخت کاٹنے والے پر کوئی کفارہ یا دیت لازم نہیں ۔لیکن اگرحفاظتی تدابیر میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کی تھی یا شاہراہ عام پر خطرہ سے آگاہی کا درست انتظام نہیں کیا تھا یاغیر قانونی طور پر درخت کاٹ رہا تھا یا اس انسان کو بچانے کا کوئی طریقہ کار گر تھا لیکن اسے اختیار نہیں کیا تو درخت کاٹنے والے پر کفارہ (مسلسل دو ماہ کے روزے )اوراس پر اور اس کے عاقلہ پردیت لازم ہوگی،یہ غفلت کےگناہ کا بھی مرتکب ہوا جس پر اللہ تعالی سے استغفار کرے۔اور اگر درخت کاٹنے والا شخص مرجانے والے شخص کا وارث بن رہا تھا تو اس کی میراث سے محروم ہوجائے گا۔
دیت کی مقدار چاندی کے حساب سے ۱۰ ہزار درہم ہے ، مروجہ اوزان میں اس کاوزن 2625 تولہ /30.618کلوگرام چاندی ہے۔(اوزان شرعیہ ازجواہر الفقہ ۳/۴۳۷)لہٰذا دیت کی ادائیگی کے وقت 2625تولہ چاندی کی جو مارکیٹ ویلوہوگی اسی کے حساب سے دیت ادا کی جائے گی ۔دیت کی ادائیگی درخت کاٹنے والے کے عاقلہ پر بھی واجب ہوگی ،عاقلہ سے مراد کسی فرد کا تعلق کسی ایسے خاندان، قبیلہ ، تنظیم یا گروہ سے ہو جو باہمی امداد کے طور پر اپنے افراد کا مالی تاوان برداشت کرتے ہوں ، وہی خاندان ،قبیلہ، تنظیم یا گروہ شرعی اصطلاح میں اس شخص کے عاقلہ ہیں اور انہی پر دیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔ ہمارے دور میں باہمی امداد کی مختلف صورتیں ہیں ، مثلا خاص قبیلہ ،خاص خاندان یا مزدوروں،صنعت کاروں اور تاجروں وغیرہ کی” ٹریڈ یونین” اور سیاسی تنظیمیں وغیرہ ،لہٰذا مزدور،صنعت کار اور تاجروغیرہ کی ٹریڈ یونین اور سیاسی تنظیمیں ان کے عاقلہ ہیں ۔ عاقلہ سے دیت کی رقم تین سال میں وصول کی جائے گی ،عاقلہ میں سے ایک شخص سے ایک سال میں۵۳۶ء۴ گرام چاندی یا اس کی قیمت سے زیادہ نہیں لیا جائے گا۔
اگر عاقلہ نہ ہوں یا عاقلہ کے افراد سے دیت پوری نہ ہورہی ہوتو مکمل یا بقیہ دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی اوراگر بیت المال میں گنجائش نہ ہو تو مکمل دیت درخت کاٹنےوالے شخص کے مال میں واجب ہوگی ۔
الفتاوى الهندية (6/ 3)
وأما ما جرى مجرى الخطأ فهو مثل النائم ينقلب على رجل فيقتله فليس هذا بعمد، ولا خطأ كذا في الكافي وكمن سقط من سطح على إنسان فقتله، أو سقط من يده لبنة، أو خشبة، وأصابت إنسانا وقتلته، أو كان على دابة فوطئت دابته إنسانا كذا في المحيط،وحكمه:حكم الخطأمن سقوط القصاص ووجوب الديةوالكفارةوحرمان الميراث
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 531)
(قوله والرابع ما جرى مجراه إلخ) فحكمه حكم الخطأ في الشرع، لكنه دون الخطأ حقيقة فإن النائم ليس من أهل القصد أصلا، وإنما وجبت الكفارة لترك التحرز عن نومه في موضع يتوهم أن يصير قاتلا، والكفارة في قتل الخطأ إنما تجب لترك التحرز أيضا، وحرمان الميراث لمباشرة القتل وتوهم أن يكون متناعسا لم يكن نائما قصدا منه إلى استعجال الإرث، والذي سقط من سطح فوقع على إنسان فقتله أو كان في يده لبنة أو خشبة فسقطت من يده على إنسان أو كان على دابة فأوطأت إنسانا فقتله مثل النائم لكونه قتلا للمعصوم من غير قصد كفاية (قوله لترك العزيمة) وهي هنا المبالغة في التثبت. قال في الكفاية: وهذا الإثم إثم القتل؛ لأن نفس ترك المبالغة في التثبت ليس بإثم، وإنما يصير به آثما إذا اتصل به القتل فتصير الكفارة لذنب القتل وإن لم يكن فيه إثم قصد القتل
التشريع الجنائي الإسلامي مقارنا بالقانون الوضعي (2/ 104)
125 – والظاهر من تتبع أمثلة الفقهاء أن الجانى يكون مسئولاً كلما كان الفعل والترك نتيجة إهمال أو تقصير أو عدم احتياط وتحرز أو عدم تبصر أو مخالفة لأمر السلطات العامة أو الشريعة
126 – ويسير الفقهاء عامة على قاعدتين عامتين يحكمان مسئولية الجانى فى الخطأ وبتطبيقهما نستطيع أن نقول إن شخصًا ما أخطأ أو لم يخطئ.
القاعدة الأولى: كل ما يلحق ضررًا بالغير يسأل عنه فاعله أو المتسبب فيه إذا كان يمكن التحرز منه، ويعتبر أنه تحرز إذا لم يهمل أو يقصر فى الاحتياط والتبصر، فإذا كان لا يمكنه التحرز منه إطلاقًا فلا مسئولية.
القاعدة الثانية: إذا كان الفعل غير مأذون فيه (غير مباح) شرعًا وأتاه الفاعل دون ضرورة ملجئة فهو تعدٍّ من غير ضرورة وما تولد منه يسأل عنه الفاعل سواء كان مما يمكن التحرز عنه أو مما لا يمكن التحرز عنه.
127 – من كان يمشى فى الطريق حاملاً خشبة فسقطت منه على إنسان فقتلته فهو مسئول عن قتله لأنه يستطيع أن يتحرز ويحتاط فلم يفعل،
الفتاوى الهندية (6/ 24)
كل دية وجبت بنفس القتل يقضى من ثلاثة أشياء في قول أبي حنيفةؒ: من الإبل والذهب والفضة كذا في شرح الطحاوي. قال أبو حنيفةؒ : من الإبل مائة، ومن العين ألف دينار، ومن الورق عشرة آلاف، وللقاتل الخيار يؤدي أي نوع شاء
التشريع الجنائي الإسلامي مقارنا بالقانون الوضعي (1/ 123)
وفي جريمة القتل الخطأ يقول الله تعالى:{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةً فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللهِ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًاحَكِيمًا}،ويقول الرسول:”وفي ديةالخطأعشرون حقة،وعشرون جذعة،وعشرون بنت مخاض،وعشرون بنت لبون،وعشرون بنو مخاض”،
فهذان النصان يحرمان القتل الخطأ، ويعاقبان عليه بالدية، ويبينان مقدارها وأوصافها.
وفی تکملة فتح الملهم : ۲/۳۷۹،۳۸۰
قال ابوحنیفة رحمه الله: ان العاقلة هم الذین یتناصرون بهم القاتل ، وكان التناصر بالقبائل، فكانت عاقلة الرجل قبیلتهم ثم تغیر الوضع حین وضع سیدنا عمر الدیوان ، فصار التناصر باهل الدیوان فاصبح اهل الدیوان عاقلة فالحاصل ان قضاء عمر بمحضر من الصحابة دل علی ان الحكم كان علی مناطه النصرة،فیتغیر بتغیره ویمكن ان یقال فی عصرنا : ان التناصر اصبح للعمال بوفاقهم الذی یسمی ترید یونین وللسیاسین باحزابهم السیاسة، فینبغی ان تكون عاقلة عامل وفاقه،وعاقلة سیاسی حزبه السیاسی ، وحیث لم یمكن للقاتل جماعة ینتصر بها فالدیة فی بیت المال ان كان منتظما فی سعة وان لم یكن منتظما ففی مال القاتل
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 642)
(وتقسم) الدية (عليهم في ثلاث سنين لا يؤخذ في كل سنة إلا درهم أو درهم وثلث ولم تزد على كل واحد من كل الدية في ثلاث سنين على أربعة) واللہ اعلم بالصواب.
کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
۱۳ محرم الحرام ۱۴۴۲
02ستمبر2020