(مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم)
بسم الله الرحمٰن الرحیم
محرم اور عاشوراء کی حقیقت
الحمد لله نحمده و نستعینه و نستغفره و نومن به ونتوکل علیه و نعوذ بالله من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یهده الله فلا مضل له ومن یضلله فلا هادی له واشهدان لا اله الا الله وحده لا شریک له واشهد ان سیدنا ونبینا و مولانا محمدا عبده ورسوله صلی الله تعالیٰ علیه وعلی اله واصحابه وبارک وسلم تسلیما کثیرا اما بعد فاعو ذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا فی کتب الله یوم
خلق السموت والارض منها اربعة حرم ﴿سورة التوبه، آیت ۳٦﴾
امنت بالله صدق الله مولانا العظیم وصدق رسوله النبی اکریم و نحن علی ذلک من الشاهدین والشاکرین والحمدلله
رب العالمین
بزرگان محترم اور برادران عزیز !
آج محرم کی ساتویں تاریخ ہے اور تین دن کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ عاشوراء کا مقدس دن آنے والا ہے۔ یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں، لیکن اللہ جل شانہ، نے اپنے فضل و کرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطاء فرمائی ہے اور ان ایام میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں۔ یہ محرم کا بھی ایک ایسا مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قراردیا ہے، جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلادیا کہ چار مہینے ایسے ہیں جو حرمت والے ہیں ، ان میں سے ایک محرم کا مہینہ ہے۔
خاص طور پر محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام پر عاشوراء کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا خصوصی طور پر حامل ہے، جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشوراء کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن حضور اقدس ﷺ نے عاشوارء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا۔ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، عاشوراء کے روزے کی اتنی بڑی فضیلت آپ نے بیان فرمائی۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشوراء کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں نبی کریم ﷺکے مقدس نواسے حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشوراء کا دن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے، یہ بات صحیح نہیں،خود حضور اقدس ﷺکے عہد مبارک میں عاشوراء کا دن مقدس دن سمجھا جاتا تھا اورآپ ﷺنے اس کے بارے میں احکام بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضور اقدس ﷺکی وفات کے تقریباً ساٹھ سال کے بعد پیش آیا،لہذا یہ بات درست نہیں کہ عاشوراء کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے، بلکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا یہ حضرت حسین کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ اس دن میں عطا فرمایا جو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آرہا تھا۔ بہر حال یہ عاشوراء کا دن ایک مقدس دن ہے۔
اس دن کے مقدس ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، اس دن کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں پر کیا فضیلت دی ہے؟ اور اس دن کا کیا مرتبہ رکھا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، ہمیں تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں، بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدم دنیا میں اترے تو وہ عاشوراء کا دن تھا، جب نوح کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشوراء کا دن تھا، حضرت ابراہیم کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے گلزار بنایا تو وہ عاشوراء کا دن تھا اور قیامت بھی عاشوراء کے دن قائم ہوگی۔ یہ باتیں لوگوں میں مشہور ہیں لیکن ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جو یہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشوراء کے دن پیش آئے تھے۔
صرف ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ کا مقابلہ فرعون سے ہوااور پھر حضرت موسیٰ دریا کے کنارےپر پہنچ گئے اور پیچھے سے فرعون کا لشکر آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے پانی پر ماریں، اس کے نتیجے میں دریا میں بارہ راستے بن گئے اور ان راستوں کے ذریعہ حضرت موسیٰ کا لشکر دریا کے پار چلا گیا اور جب فرعون دریا کے پاس پہنچا اور اس نے دریا میں خشک راستے دیکھے تو وہ بھی دریا کے اندر چلا گیا، لیکن جب فرعون کا پورا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو وہ پانی مل گیا اور فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہو گیا، یہ واقعہ عاشوراء کے دن پیش آیا، اس کے بارے میں ایک روایت موجود ہے جو نسبتا بہتر روایت ہے، لیکن اس کے علاوہ جو دوسرے واقعات ہیں، ان کے عاشوراء کے دن مین ہونے پر کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس دن کو فضیلت بخشی؟ بلکہ یہ سب اللہ جل شانہ کے بنائے ہوئے ایام ہیں، وہ جس دن کو چاہتے ہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے لئے منتخب فرمالیتے ہیں، وہی اس کی حکمت اور مصلحت کو جاننے والے ہیں، ہمارے اور آپ کے ادراک سے ماوراء بات ہے، اس لئے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لئے منتخب کرلیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہو، سنت کے طور پر اس دن کے لئے صرف ایک حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے، چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس دن میں روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، بس یہ ایک حکم سنت ہے، اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطاء فرمائے،آمین
اس میں ایک مسئلہ اور بھی ہے، وہ یہ کہ حضور اقدس ﷺ کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشوراء کا دن آتا تو آپ ﷺ روزہ رکھتے، لیکن وفات سے پہلے جو عاشوراء کا دن آیا تو آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور ساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودیوں کے روزہ رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ اس دن میں چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی، اس کے شکرانے کے طور پر یہودی اس دن روزہ رکھتے تھے، بہر حال حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا،9 محرم یا 11 محرم کا روزہ بھی رکھوں گا تا کہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہو جائے۔
لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس ﷺ کا وصال ہوگیا اور آپ ﷺ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی۔لیکن چونکہ حضور اقدس ﷺنے یہ بات ارشاد فرمادی تھی،اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور 9 محرم یا 11 محرم کا ایک روزہ اور ملا کر رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا اور تنہاء عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اقدس ﷺکے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنز یہی اور خلاف اولیٰ قرار دیا،یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اس کو عاشوراء کے دن روزہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ ﷺکی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی، اس لئے اس خواہش کی تکمیل میں بہتر یہ ہے کہ ایک روزہ اور ملا کر دو روزے رکھے جائیں۔
رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد میں ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے، وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور اقدس ﷺنے پسند نہیں فرمائی، حالانکہ وہ مشابہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی، بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کررئے ہیں، ہم بھی اس دن وہی عبادت کر رئے ہیں،لیکن آپ ﷺنے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا، کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے، وہ سارے ادیان سے ممتازہے اور ان پر فوقیت رکھتا ہے، لہذا ایک مسلمان کا ظاہر و باطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہونا چاہیے، اس کا طرز عمل، اس کی چال ڈھال، اس کی وضع قطع، اس کا سراپا، اس کے اعمال، اس کے اخلاق، اس کی عبادتیں وغیرہ ہر چیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے، چنانچہ احادیث میں یہ احکام جا بجا ملیں گے جس میں حضور اقدس ﷺنے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو، مثلا فرمایا۔
خالفواالمشرکین
﴿صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب فی العمائم﴾
یعنی مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں، ان سے اپنا ظاہر و باطن الگ رکھو۔
مشابہت اختیار کرنے والا انہی میں سے ہے
جب عبادت کے اندر اور بندگی اور نیکی کے کام میں بھی نبی کریم ﷺنے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو دوسرے کا موں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی، اگر یہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تا کہ میں ان جیسا نظر آؤں، تو یہ گناہ کبیرہ ہے، حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا۔
من تشبه بقوم فهو منهم۔
﴿ابو داود، کتاب الباس، باب فی لبس الشهرة﴾
جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ اسی قوم کے اندر داخل ہے، مثلاً اگر کوئی شخص انگریزوں کا طریقہ اس لئے اختیار کرے تا کہ میں دکھنے میں انگریز نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے، لیکن اگر دل میں یہ نیت نہیں ہے کہ میں ان جیسا نظر آؤں بلکہ ویسے ہی مشابہت اختیار کرلی تو یہ مکروہ ضرور ہے۔
افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کو اس حکم کا خیال اور پاس نہیں رہا، اپنے طریقہ کار میں، وضع قطع میں، لباس پوشاک میں، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں، کھانے پینے کے طریقوں میں ، زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلی ہے، ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں، ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں، ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، ان کی طرح بیٹھتے ہیں، زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے ایک فیشن بنالیا ہے،آپ اندازہ کریں کہ حضور اقدس ﷺنے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا، اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کر رکھی ہے، خدا کے لئے اس کو چھوڑیں اور جناب رسول اللہ ﷺکے طریقوں کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی نقالی کریں، ان لوگوں کی نقالی مت کریں جو روزانہ تمہاری پٹائی کرتے ہیں، جنہوں نے تم پر ظلم اور استبداد کا شکنجہ کسا ہوا ہے، جو تمہیں انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں، ان کی نقالی کر کے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ ہاں دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں رسوائی ہو گی، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔
بہر حال اس مشابہت سے بچتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا کام ہے، عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم تو برحق ہے، لیکن روزے کے علاوہ عاشوراء کے دن لوگوں نے جو اور اعمال اختیار کر رکھے ہیں، ان کی قرآن کریم اور سنت میں کوئی بنیاد نہیں، مثلاً بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عاشوراء کے دن کھچڑا پکنا ضروری ہے، اگر کھچڑا نہیں پکایا تو عاشوراء کی فضلیت ہی حاصل نہیں ہوگی، اس قسم کی کوئی بات نہ تو حضور اقدس ﷺنے بیان فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور تابعین رحمہ اللہ علیہم نے اور بزرگان دین نے اس پر عمل کیا، صدیوں تک اس عمل کا کہیں و جود نہیں ملتا۔
ہاں ایک ضعیف اور کمزور حدیث ہے،مضبوط حدیث نہیں ہے ، اس حدیث میں حضور ﷺکا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر اور ان لوگوں پر جو اس کے عیال میں ہیں، مثلاً اس کے بیوی بچے، گھر کے ملازم وغیرہ، ان کو عام دنوں کے مقابلے میں عمدہ اور اچھا کھانا کھلائے اور کھانے میں وسعت اختیار کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں برکت عطا فرمائیں گے، یہ حدیث اگر چہ سند کے اختیار سے مضبوط نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پر جو فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ انشاء اللہ حاصل ہو گی، لہذا اس دن گھر والوں پر کھانے میں وسعت کرنی چاہیے، اس کے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑلی ہیں، ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔
قرآن کریم نے جہاں حرمت والے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے، اس جگہ پر ایک عجیب جملہ یہ ارشاد فرمادیا کہ۔
فلا تظلمو فیهن انفسکم
﴿سورة التوبه آیت ۳٦﴾
یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، ظلم نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان مہینوں میں گناہوں سے بچو، بدعات اور منکرات سے بچو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہیں،جانتے تھے کہ ان حرمت والے مہینوں میں لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں گے اور اپنی طرف سے عبادت کے طریقے گھڑ کر ان پر عمل کرنا شروع کردیں گے، اس لئے فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
شیعہ حضرات اس مہینے میں جو کچھ کرتے ہیں، وہ اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں، لیکن بہت سے اہل سنت حضرات بھی ایسی مجلسوں میں اور تعزیوں میں اور ان کاموں میں شریک ہوجاتے ہیں، جو بدعت اور منکر کی تعریف میں آجاتے ہیں، قرآن کریم نے تو صاف حکم دیدیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو بلکہ ان اوقات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اور اس کے ذکر میں اور اس کے لئے روزہ رکھنے میں اور اس کی طرف رجوع کرنے میں اور اس سے دعائیں کرنے میں صرف کرو اور ان فضولیات سے اپنے آپ کو بچاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشوراء کی حرمت اور عظمت سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے مطابق اس دن کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین
(اصلاحی خطبات جلد : 14 ،ص : 77)
ناقل : محمد عاصم