بینک کوجگہ کرایہ پردینا

سوال:بینک  کے لیے  اپنے مکان کو کرایہ پر دینے کے بارے میں وضاحت کردیں۔

سائل:محمد بن سید عرفان

الجواب حامداومصلیا

غیر سودی بینکاری کے لیے جگہ کرایہ پر لینا چاہتے ہیں تو کرایہ پر دینا جائز ہے۔اور اگر سودی بینکاری کے لیے جگہ کرایہ پر طلب کررہے ہیں  یاڈیکوریشن وغیرہ سے سودی بینکاری معلوم ہورہی ہےیاکرایہ پر طلب کرتے وقت سودی بینک کی صراحت کررہے ہیں یا کمیشن ایجنٹ سے یہ بات معلوم ہورہی ہے  تو ان سب صورتوں میں جگہ کرایہ پر دینا گناہ پر تعاون ہے جو آیت مبارکہ کی روشنی میں حرام ہے لہٰذا سودی بینک کو جگہ کرایہ پر دینا جائز نہیں۔

الحجة علی ما قلنا

ما جاء فی التنزیل العزیز: المائدة :۲

ولا تعانوا علی الاثم والعدوان الخ

ما فی الدر المختار، الحظر والإباحة / فصل في اللبس ۶؍۳۶۰ دار الفکر بیروت

کل ما أدی إلی ما لا یجوز، لا یجوز۔

وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 45) ایچ ایم سعید

والأجر يطيب وإن كان السبب حراما كما في المنية

وفی الدر مع الرد : ۹/۶۴۵ رشیدیه

قلت وقدمناه: ان ما قامت المعصیة بعینه یکره بیعه تحریما

وفی الفقه البیوع : ۱/۱۹۴ مكتبة معارف القرآن

ان قصد البائع الاعانة او صرح فی العقد بكونه یستخدم للاعمال الربویة حرم البیع وبطل والظاهر ان المستاجر حینما یعقد البیع او الاجارة لاقامة فرع للبنك  مثلا۔فانه فی حكم التصریح بان البناء یستعمل للاموال الربویة

واللہ اعلم بالصواب

كتبہ: محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوارجی کراچی

۲۴/۲/۱۴۴۱ھ‫

2019/10/24

اپنا تبصرہ بھیجیں