سوال: مفتی صاحب اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی پر عاشق ہو اور لڑکی کو بھی یہ سب معلوم ہو لیکن رشتہ مانگنے پر دوسرے رشتہ دار مثلا چاچا اگر رشتہ نہ دے تو کیا لڑکے کے لیے تعویذ کےذریعے اس چاچا کو راضی کرنا یا رشتہ ہوجانے کے لیے تعویذ کرانا کسی عامل سے جائز ہے کیا؟رہنمائی فرمائیے گا!
سائل:محمد عبدالرحمن
﷽
الجواب حامداومصلیا
واضح رہے کہ عملیات میں شرکیہ وکفریہ تعویذات نہ ہوں تب بھی ہر کام میں عملیات کا سہارا لینا اسلامی تعلیمات میں ناپسندیدہ ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ہماری کفایت کے لیے مسنون دعائیں اور اذکار سکھادیے ہیں،ان ہی کا اہتمام کرنا چاہیے ،وقتی طور پر حالات موافق نہ بھی ہوں تو اللہ تعالی پر کامل یقین کے ساتھ ثابت قدمی اور ظاہری اسباب اختیار کرتے ہوئے آزمائشوں پر صبر، نماز اور دعا ؤں کے ذریعے اللہ سے مدد مانگنی چاہیے۔اور نتائج اللہ تعالی کے سپرد کردینے چاہییں۔
جہاں تک کسی عامل سے تعویذ کی صورت میں عمل کرانے کا تعلق ہے تو یہ عمل باعتبار اثر دو قسم پر ہے۔
جس پر عمل کیا جائے وہ مسخر اور مغلوب العقل ہوجائے ایسا عمل ایسے مقاصد کے لیے جائز نہیں جو شرعا واجب نہ ہوں جیسے کسی معین عورت سے نکاح کرنا ۔
جس پر عمل کیا جارہا ہے اس کو صرف مقصد کی طرف میلان ہوجائے ۔پھروہ خود اپنی بصیرت اور غور وفکر کرکے فیصلہ کرلے یہ جائز ہے۔لہٰذا مذکورہ صورت میں ایسے عمل کی گنجائش ہے۔
الحجۃ علی ما قلنا
ما فی صحیح مسلم ، کتاب السلام، باب لا بأس بالرقی ما لم یکن فیه شرک ۲/ ۲۲۴
عن عوف ابن مالک الأشجعي قال: کنا نرقي في الجاهلیة فقلنا: یا رسول اﷲ! کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیه شرک
ما فی مرقاة فی شرح مشكاة، کتاب الطب والرقی، الفصل الثاني، مکتبه إمدادیه ملتان ۸/ ۳۶۰
وأما ما کان من الایات القرانیة والأسماء والصفات الربانیة والدعوات المأثورة النبویة فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذا أو رقیة أو نشرۃ۔
فی أحکام القران للتهانوي تحت تفسیر رقم الایة: ۱۰۲من سورة البقرة،(إدارۃ القران ۱/ ۵۱)
وما کان منها بآیات قرآنیة أو أسماء إلهیة وأمثالها إلا أن المقصود بها إضرار مسلم کالتفریق بین الزوجین … أو تسخیر مسلم بحیث یصیر مسلوب الاختیار في الحب أو البغض لأحد … فحرام لکونه ظلما۔
امداد الفتاوی جدید ۔ حاشیہ شبیر احمد القاسمی 8/ 538
عمل باعتبار اثر کے دو قسم کے ہیں ۔ ایک قسم یہ کہ جس پر عمل کیا جاوے وہ مسخر اور مغلوب المحبّت ومغلوب العقل ہو جاوے ایسا عمل اس مقصود کے لئے جائز نہیں جو شرعاً واجب نہ ہو، جیسے نکاح کرنا کسی معیّن مرد سے کہ شرعاً واجب نہیں ، اس کے لئے ایسا عمل جائز نہیں
دوسری قسم یہ کہ صرف معمول کو اس مقصود کی طرف توجہ بلا مغلوبیت ہوجاوے، پھر بصیرت کے ساتھ اپنے لئے مصلحت تجویز کرلے، ایسا عمل ایسے مقصودکےلئےجائزہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
۱۳شوال المکرم۱۴۴۱ھ
5جون2020