فتویٰ نمبر:5053
سوال: اگر فاطمہ نے اپنے مال کی زکوة نکالی اور پھر وہ ساری رقم زینب کو دیدی کہ آپ اس رقم کو اپنے حساب سے تقسیم کردینا یعنی جس کو دینا ہو دیدینا۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس کی زکوة ادا ہوجائے گی؟
2: کچھ وقت بعد فاطمہ نے اپنے شوہر کیلیے کچھ رقم زکوة کی مد میں سے مانگی۔ تو کیا اس کا یوں کرنا جائز ہے؟
والسلام
الجواب حامدا و مصليا
مذکورہ صورت میں فاطمہ نے زینب کو اپنا وکیل بنایا کہ وہ مستحقین کو زکوۃ ادا کر دے، اب زینب جس کو مستحق سمجھے اس کو دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ البتہ فاطمہ اپنے شوہر کے لیے اپنی زکوۃ نہیں لے سکتی۔ ہاں نفلی صدقات کے ساتھ اس کی مالی مدد کر سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
“وللوکیل أن یدفع لولدہ الفقیر وزوجتہ لا لنفسہ الا اذا قال ربھا”
{الدر المختار:۳/۲۲۶}
“’’ اگر جائز طریقے سے کسی کا حق(خواہ اللہ کا حق ہو جیسے زکوٰۃ یا بندے کا حق)باطل کیاجائے یا کسی باطل (مثلاًسود ،رشوت وغیرہ )کو حاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے ‘‘۔
{تفھہیم المسائل:۲/۱۷۵}
” تمام رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں صرف دو رشتے ایسے ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ایک ولادت کا رشتہ ہے لہٰذا باپ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا، دوسرا نکاح کا رشتہ ہے لہٰذا شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی، ان کے علاوہ باقی تمام رشتوں میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے”۔
{مفتی تقی عثمانی، اصلاحی خطبات: ۹/۲۲}
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: ۶ رجب ۱۴۴۰
عیسوی تاریخ:۱۳ مارچ ۲۰۱۹
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: