FROM: [akram ufiyaanhu[akramufiyaanhu@gmail.com
SENT: Saturday, January 16, 2016, 8:47pm
TO: Muhammad-taqi@cyber.net.pk
السلام علیکم!
درجہ ذیل مسائل کا شرعی حل مطلوب ہے۔
1: غیر اسلامی بینک سے حاصل ہونے والے سود رفاہی میں صرف کیا جا سکتا ہےیا نہیں؟
2: زید خود مستحق زکوۃ ہے تو کیا زید خود کے اکاؤنٹ سے حاصل شدہ سود کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا دوسرے فقراء پر تصدق لازم ہےنیز کیا زید اس سود کو اپنی بیوی یا اپنے اصول و فروغ پر تصدق کر سکتا ہے؟
3: عمر متشرع شخص ہے اس پر تجارت کرتے کرتے 6لاکھ روپوں کا قرض ہو گیا ۔ قرض خواہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں نیز عمر کے 2شادی شدہ بھائی کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے ۔عمر کو کوئی قرضہ حسنہ بھی نہیں مل رہا اور اس کو کوئی زکوۃ بھی نہیں دے رہا ۔عمر پریسشان حال ہے تو کیا اس صورت حال میں عمر کو بقدر ضرورت سودی لون لینا جائز ہو گا ؟
مفصل جوابات مرحمت فرما کر ما جور ہو فقط۔
الجواب حامداً و مصلیاً
1: مذکورہ رقم کے بارے میں اصل حکم یہ ہے کہ یہ رقم اصل مالک کو واپس کر دی جائے لیکن عام طور پر اصل مالک معلوم نہیں ہوتا اس لیے یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر اصل مالک یا اصل مالکوں کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہےاور احتیاط اسی میں ہے تاہم اس سلسلہ میں اکابر علماء کی 2رائے ہیں:
۱: حرام مال کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ اور دیگر صدقات واجبہ کے ہیں ،جن کا قرآن میں ذکر ہے ،اور اس میں تملیک (کسی کو مالک بنانا) بھی شرط ہے یعنی کسی فقیر ومسکین کو باقاعدہ مالک وقابض بناکردینا ضروری ہے کسی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں۔
2:حرام مال لقطہ کے حکم میں ہے اور لقطہ کے مصارف وہی ہیں جو صدقات نافلہ کے ہیں یعنی رفاہی کاموں مثلاً مساجداور مدارس وغیرہ میں لگانا جائز ہے۔
پہلے قول میں احتیاط اور دوسرے قول میں توسع(گنجائش ) ہے البتہ احترام مسجد کے پیش نظر یہ رقم مسجد میں بہرحال نہ لگائی جائے کیونکہ یہ رقم ناجائز عقد کے ذریعے حاصل ہوئی ہے۔
(ماخذہ، فتاوی عثمانی:3/129 تا 140، و التبویب:1734/58 تبصرف)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح (9/241)
و عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ان اللہ طیب ای منزہ عن النقاص و العیوب و متصف بالکلمات من النعوت لا یقبل ای من الصدقات و نحوھا من الاعمال الا طیبا ای منزھا عن العیوب الشرعیۃ و الاغراض الفاسدۃ فی النیۃ۔
حاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) (1/958)
قال تاج الشرعیۃ: اما لو انفق فی ذلک مالا خبیثا و مالا سببہ الخبیث و الطیب فیکرہ لان اللہ تعالیٰ لا یقبل الا الطیب، فیکرہ تلویث بیتہ بما لا یقبلہ۔
حاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) (5/99)
و الحاصل انہ ان علم ارباب الاموال وجب ردہ علیھم، و الا فان علم عین الحرام لا یحل لہ و یتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔
الفتاوی الھندیۃ (3/212)
فانہ یتصدق بذلک الفصل فی قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف رحمھما اللہ تعالیٰ و انما طاب للمساکین علی اللقطۃ قال و ھذا الربح لا یطیب لھذا المشتری و ان کان فقیرا لانہ یکتسبہ بمعصیۃ و یطیب للمساکین و ھو اطیب لھم من اللقطۃ۔
2: جب تک حلال مال موجود ہو اس طرح کا حرام مال استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں البتہ اگر حلال مال بلکل بھی موجود نہ ہو اور زید کے پاس خرچ کرنے کے لیے اور کوئی مال بھی نہ ہو تو اس کے لیے مستحق زکوۃ ہونے کی بناء پر یہ حرام رقم بطور صدقہ اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے البتہ سودی لین دین ناجائز اور سخت حرام ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ سودی بینک سے لین دین کے معاملات یعنی سودی اکاؤنٹ بلکل ہی ختم کردےاور اب تک جو گناہ ہو ا ہے اسی پر صدق دل سے توبہ کرنا بھی ضرورہی ہے اور رقم کی حفاظت کے لیے ایسے غیر سودی بینک جو مستند علماء کرام کے زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں ان میں اکاؤنٹ کھلو ا سکتا ہے لیکن اگر اس کے پاس خرچہ کے لیے رقم ہو اور اس کو یہ رقم استعمال کرنے کی شدید حاجت ہوتو پھر اس شرط کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت ہے کہ جب بعد میں حلال مال میسر آجائے تو اتنی رقم صدقہ کر دے اور اگر زید کی بیوی یا اس کےبچے مستحق زکوۃ ہوں تو ان پر صدقہ کرنا بھی جائز ہے (ماخذہ امداد المفتین:2/386 تبصرف)
فقہ البیوع 2/1040
و ذکر صاحب “الاختیار فی شرح المختار” انہ و ان و جب التصدق بالفضل و لکن ان احتاج الیہ بان لم فی ملکہ ما یسد بہ حاجۃ نفقتہ و نفقہ عیالہ فصرفہ فی حاجتہ بنیۃ انہ یتصدق بمثلہ فیما بعد جاز لہ ذلک۔ قال رحمہ اللہ تعالی بعد بیان مذھب ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالی فی وجوب التصدق بالفضل: “و لھما انہ حصل بسبب خبیث و ھو التصرف فی ملک الغیر و الفرع یحصل علی صفۃ الاصل و الملک الخبیث سبیلہ التصدق بہ و لو صرفہ فی حاجۃ نفسہ جاز ثم ان کان غنیاً فصدق بمثلہ و ان کان فقیرا لا یصدق” و لکن مقید بما اذا لم یکن عندہ مال آخر لدفع حاجتہ۔ قال صاحب الھدایۃ: الا اذا کان لا یجد غیرہ لانہ محتاج الیہ و لہ ان یصرفہ الی حاجۃ نفسہ فلو اصاب مالاً تصدق بمثلہ ان کان غنیاً وقت الاستعمال و ان کان فقیرا فلا شیئ علیہ۔۔۔۔۔۔۔۔
3: سودی لین دین ناجائز اور سخت حرام ہے اس پر قرآن اور حدیث میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ایک حدیث میں سود کھانے والے اور کھلا نے والے پر رسول اللہﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس لیے موجودہ حالا ت میں عمر کے لیے سودی قرض لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ صرف حلال ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔
(ماخذہ امداد الفتاوی، ج:3،ص:147، تبصرف و التبویب:1584/5)
البقرۃ:275
وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا
البقرۃ:287
یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
آل عمران:130
یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَّ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
البقرۃ:173
اِنَّمَا حَرَّمَ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
صحیح البخاری – نسخۃ طوق النجاۃ (ص:360)
حڈثنا محمد بن المثنی قال حدثنی غندر حدثنا شعبۃ عن عون بن ابی جحیفۃ عن ابیہ انہ اشتری غلاما حجاما فقال ان النبی ﷺ نھی عن ثمن الدم و ثمن الکلب و کسب البغی و لعن آکل الربا و موکلہ و الواشمۃ و المستوشمۃ و المصور
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم
محمد علی قرغیزی عفی عنہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
16،ربیع الثانی،1437
2016،1،27ء
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/902824010086845/