حدیث کی صحت 

فتویٰ نمبر:6076

سوال: حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ترجمہ:”جس نے میرے روضے کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہو گی“۔ اس حدیث کی صحت کے بارے میں بتا دیجیے!

والسلام

الجواب حامداو مصليا

روی الدار قطنی،والبیھقی فی ”الشعب“ من طریق موسی بن ھلال العبدی،عن عبید اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم:”من زار قبری وجبت له شفاعتی۔“

ترجمہ:”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا،اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی“۔

(سنن الدار قطنی:٢٧٨/٢، شعب الایمان للبیھقی:٤٩٠/٣،مسند البزار(کشف الاستار):٥٧/٢)

اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔اس کے بارے میں امام ابن خزیمہ رحمه اللہ فرماتے ہیں:”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں“۔ (لسان المیزان لابن حجره:١٣٥/٤)

اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“قرار دیا ہے۔(ایضاً)

٢۔امام عقیلی رحمه اللہ فرماتے ہیں:”اس میں کمزوری ہے“۔(الضعفاءالکبیر:١٧٠/٤)

٣۔حافظ بیھقی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ :”یہ روایت منکر ہے“۔ (شعب الایمان:٤٩٠/٣)

٤۔حافظ نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں: ”اس کی سند ضعیف ہے“ (المجموح شرح المذھب:٢٧٢/٨)

٥۔حافظ ابن عبد الھادی رحمه الله لکھتے ہیں:یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔(الصارم المنکی فی الرد علی السبکی:٣٠)

٦۔حافظ ابن حجر رحمه الله لکھتے ہیں:”اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں“۔(التلخیص الحبیر:٢٦٧/٢)

٧۔حافظ ذهبی رحمه اللہ فرماتے ہیں :”یہ حدیث منکر ہے“۔(تاریخ الاسلام:٢١٢/١١،وفی نسخة:١١٥/١١)

▪اس روایت کے راوی موسی بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں اس کے ساتھ ساتھ محدثین کرام نے اس کو مجہول اور اس کی بیان کردہ روایات کو منکر قرار دیا ہے۔

امام ابو حاتم رازی (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:١٦٦/٨)اور امام دار قطنی (لسان المیزان لابن حجره:١٣٦/٦)نے اسے ”مجہول“ قرار دیا ہے۔

امام عقیلی رحمه اللہ فرماتے ہیں ”اس کی حدیث ضعیف اور منکر ہوتی ہے“۔ (الضعفاءالکبیر:١٧٠/٤)

اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمه اللہ کے قول”مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں“۔ (الکامل فی ضعفاءالرجال:٣٥١/٦) ذکر کرتے ہوئے حافظ ابن قطان فاسی رحمه الله فرماتے ہیں:”حق بات یہ ہے کہ اس راوی کى عدالت ثابت نہیں ہوئی“(بیان الوھم والایھام فی کتاب الاحکام:٣٢٢/٤)

حافظ ابن قطان رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل درست ہے۔امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اس قول سے موسی بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ جعفر بن میمون راوی کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں:مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔اس کی حدیث ضعیف راویوں میں لکھی جائے گی۔ (الکامل:١٣٨/٢،وفی نسخة:٥٦٢)

ائمہ کرام کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ موسی بن ہلال کو واضح طور پر کسی متقدم امام نے ”ثقہ“قرار نہیں دیا اور ان کی حدیث ”ضعیف“ اور ”منکر“ہوتی ہے۔

وموسی بن ھلال ھذا لایعرف،قال ابو حاتم:مجھول،وقال العقیلی:لایتابع علی حدیثه.

ولما ذکرہ العقیلی فی الضعفاء،اورد ھذا الحدیث عن محمد بن عبداللہ الحضرمی،عن جعفر بن محمد عن عن موسی بن ھلال عن عبید اللہ بن عمر بخ وقال لا یصح۔وفی اسئلة البرقانی:انه سال الدار قطنى عن موسی بن ھلال،فقال: ھو مجھول“ انتھی۔

فبان بذلک ان للحدیث علتین: 

اولاد:موسی بن ھلال:مجھول۔

ثانیا:الصحیح انه من روایته عن عبداللہ عبداللہ بن عمر المکبر عن اخیه عبیداللہ،وعبداللہ المکبر ضعیف الحدیث،ضعفه ابن معین، والنسائی،والبخاری،وابن سعد،وابن حبان،وغیرھم۔

انظر:”التھذیب“(٣٢٧/٥)

وقال شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه اللہ:”احادیث زیارة قبرہ صلی اللہ علیه وسلم کلھا ضعیفة،لا یعتمد علی شیئ منھا فی الدین؛ولھذا لم یرو اھل الصحاح والسنن شیئا منھا،وانما یرویھا من یروی الضعاف،

کالدار قطنی والبزار وغیرھما”انتھی من ”مجموع الفتاوی“(٢٣٤/١)

وقال أيضا رحمه الله:

” (مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي)

ھذاالحدیث رواہ الدارقطني ، فیما قیل،باسناد ضعیف،ولھذا ذکرہ غیر واحد من الموضوعات،ولم یروہ احد من اھل الکتب المعتمد علیھا، من كتبِ الصحاحِ والسنن والمسانيد“.

انتهى من ”مجموع الفتاوى“ (٢٧/٢٥) .

وقال ابن عبد الهادي رحمه الله:

”هذا حديث غير صحيح،ولا ثابت ، بل هو حديث منكر عند أئمة هذا الشأن،ضعيف الاسناد عندهم، لا يقوم بمثله حجة ولا يعتمد على مثله عند الاحتجاج إلا الضعفاء في هذا العلم“ انتهى من ” الصارم المنكي“(ص: ٢١).

وضعفه النووي في “المجموع” (٢٧٢/٨) .

وقال الذهبي :” حديث منكر “انتهى من”تاريخ الإسلام“ (٢١٢/١١) .

وقال الألباني في ”ضعيف الجامع“ (٥٦٠٧) : ”موضوع“ .

خلاصہ: 

ضعیف حدیث کا حکم یہ ہے فضائل اعمال کے اندر ضعیف حدیث چل جاتی ہے اور محدثین سلف کا یہی معمول رہا کہ وہ فضیلت عمل کے اندر تساہل سے کام لیتے تھے،البتہ احکام اور عقائد والی حدیث میں خوب تحقیق سے کام لیا جائے۔

روضہ اقدس صلی الله عليه وسلم کی زیارت بالاجماع عظیم عبادت اور افضل طاعت ہے اور ترقی درجات کے وسائل میں سے سب سے بڑا وسیلہ ہے۔بعض علماء نے اہل وسعت کے لیے اسے واجب لکھا ہے( معلم الحجاج)اور روضہ اطہر کی زیارت کی فضیلت متعدد روایات اور مختلف طرق سے ثابت ہے اس لیے اگر کسی سند میں (جیسا کہ اس روایت میں)ضعف پایا بھی جائے تو وہ فضیلت کے ثبوت کے لیے مانع نہیں ہوگا۔

(دارالعلوم دیوبند)

”قال عبدالرحمن المھدی اذا روینا عن النبی فی الحلال والحرام والاحکام شددنا فی الاسانید وانتقدنا فی الرجال واذا روینا فی الفضائل والثواب والعقاب سھلنا فی الاسانید وتسامحنا فی الرجال“ (مقدمہ فتح الملھم:٨)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:26رجب 1440ھ

عیسوی تاریخ:2/اپریل 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں