فتویٰ نمبر:4058
سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ،مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے اور پلیز جواب دے دیجئے گا جتنا جلد ممکن ہو،کہ جہیز کی شرعی حیثیت بتا دیجئے اسلام کے آئینے میں،
ایک طرف یہ سنا کہ اگر لڑکی کا باپ ،یا اسکے گھر والے اپنی خوشی سے اسے کوئی ھدیہ دیں مطلب ایسی چیزیں کہ جو اس کے لئے اگلی زندگی میں سہولت ہو تو یہ۔مستحسن۔ہے اگرچہ یہ لازمی نہیں ،پھر یہ بتایا۔جاتا۔کہ یہ نبی علیہ السلام نے بھی اپنی بیٹی کو چند چیزیں دیں جیسے،کہ سنت ہے
دوسری طرف یہ سنا کہ نبی علیہ السلام۔نے جب ارادہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو آگے جو حدیث میں واقعہ مذکور ہے کہ مطلب انہیبکے۔درھم سے چند چیزیں آئیں اور باقی سے مہر اور شاید کچھ کھانا ہوا تو اس سے پتہ چلا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ کے مال سے چیزیں تھیں اسی لئے کہا جاتا کہ اگر یہ جہیز سنت ہوتی تو باقی بیٹیوں کی بھی مثال ہوتی سامنے،حضرت علی چونکہ انہیں کے زیر کفالت تھے تو انہوں نے اس لئے انتطام کروایا اس طرح،
پوچھنا یہ۔ہے کہ۔اصل کیا ہے ایک طرف ہندووانہ رسم کے جہیز لڑکی لائے گی ہر حال میں دوسری طرف بعض جگہوں پہ ہے کہ جب شادی ہونے لگتی تو لڑکے والوں سے پیسے لئے جاتے ہیں تو لڑکی والے پیسے لے کے اس کےلئے سامان لیتے،درمیانی راہ نہیں ہے یا بہت ہی کم ہے،صحیح راستہ کیا ہے ،؟حلال کیا ہے جائز کیا ہے،مستحسن کیا ہے اور حرام۔کیا ہے،مہربانی کر کے مجھے جلد جواب دیجئے
الجواب حامدا و مصليا
و علیکم السلام!
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ جہیز اس ساز و سامان کو کہتے ہی جو بوقت شادی بیٹی کو اپنے میکے سے ملے۔
یہ جہیز مستحب یا پسندیدہ ہے ایسی کوئی بات قرآن و سنت میں باوجود کوشش ہمیں نہ مل سکی ۔ یہ درحقیقت اپنی بیٹی کے ساتھ صلہ رحمی ہے اور حسن نیت کے ساتھ ہو تو باعث اجر بھی۔ لہذا فی نفسہ اپنی بیٹی کو شادی کے موقعے پر جہیز جو درحقیقت ہدیہ ہے ،دینا جائز ہے،مگر اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
1_دلی خوشی سے بغیر کسی پریشانی اور دباؤ کے دیا جائے
2_ نمود و نمائش نہ ہو۔
3_ جہیز دے کر لڑکی کو وراثت سے محروم نہ سمجھا جائے۔
4_اپنی حیثیت اور لڑکی کی ضرورت کے مطابق ہو۔
ساتھ ہی یہ خوب سمجھ لیجئے کہ شریعت کی نظر میں سب سے بہتر نکاح وہ ہے جس میں غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کیا جائے؛ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو فضول رسموں میں پیسہ برباد کرنے سے بچنا چاہئے۔
لڑکے کایااس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کالڑکی سے یااس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کایاکھانے کی دعوت کاصراحت کے ساتھ یااشارہ وکنایہ میں یارسم ورواج کی بنیاد پر مطالبہ کرناجائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے اورمرد کی غیرت کے خلاف ہے۔کپڑے، زیورات، اورگھریلوساز وسامان کاانتظام کرناسب مرد کے ذمہ ہے۔
جہاں تک بات ہے کہ جہیز رسول ﷺ کی سنت ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تو ان کو اپنے پاس سے جہیز عطا کیا تو زیادہ وزن اس بات میں محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے آپ کے زیر کفالت تھے۔گویا کہ آپ کے بیٹے کے برابر تھے اور بچپن سے آپ کے تمام اخراجات کی فراہمی آپ کے ذمہ تھی،لہذا بطور سر پرست کچھ سامان کا انکے لئے بندوبست کردیا۔بلکہ سیرت کی بعض کتابوں میں یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ نے بوقت رخصتی دیاتھا وہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہا کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خرید کردیاتھا۔ (مثلا دیکھیے شرح مواہب “ج 2 صفحہ 3۔4)۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ تین صاحبزادیاں تھیں جو بڑی ہوئیں اور پھر بیاہی گئیں مگر مذکورہ” جہیز ” آپ نے صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دیا بقیہ صاحبزادیوں کو اس قسم کا کوئی جہیز نہیں دیا۔ اگر جہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی ” جہیز “دیا ہوتا۔
🔅عن عائشۃ -رضي اﷲ عنہا- أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ۔ (مسند أ؛مد ۶/ ۸۲، رقم: ۲۵۰۳۴)
🔅عن ابن عباس -رضي اﷲ عنہ- قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: لا ضرر ولا ضرار۔ (سنن ابن ماجۃ، باب من بنی في حقہ ما یضر بجارہ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۶۹، دارالسلام، رقم: ۲۳۴۱، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲/ ۸۶، رقم: ۱۳۸۷)
🔅حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
» مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لِعِزِّھَا لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ إِلَّا ذُلًّا ،وَمَنْ تَزَوَّجَھَا لِمَالِھَا لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ إِلَّا فَقْرًا ،وَمَنْ تَزَوَّجَھَا لِحَسَبِھَا لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ إِلَّا دَنَائَ ۃً ،وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لَمْ یَتَزَوَّجَھَا إِلَّا لِیَغُضَّ بَصَرَہُ أَوْ لِیُحْصِنَ فَرْجَہُ أَوْ لِیَصِلَ رَحِمَہُ بَارَکَ اللّٰہُ لَہُ فِیْھَا وَ بَارَکَ لَھَا فِیْہِ۔ معجم اوسط طبرانی :۳/۲۱
فقط ۔ واللہ اعلم
قمری تاریخ: ۱۷رجب ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ: ۲۵ مارچ ۲۰۱۹
تصحیح وتصویب:
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
https://twitter.com/SUFFAHPK
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: