فتویٰ نمبر:4059
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ایک خاتون نے اپنے شوہر کو کاروبار میں لگانے کے لیے اپنی مہر کی رقم دے۔تو اب اس میں کیا عورت ہر ماہ نفقہ الگ اور نفع کا الگ مطالبہ کرسکتی ہے؟؟؟اگر وہ الگ الگ مطالبہ کرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
تنقیح : مہر کی رقم کس نیت سے دی؟
جواب تنقیح: یہ رقم کاروباری ارادے سے دی ہے کہ اپنی رقم کاروبار میں لگاکر نفع حاصل کریں۔
والسلام
الجواب حامداو مصليا
ذکر کردہ صورت میں جہاں تک نفقہ کی بات ہے تو وہ نکاح کے موقع پر یا زوجین کی باہمی رضامندی سے ہر ماہ کا جتنا نفقہ مقرر ہے ،دیا جائے گا۔ (۱)
البتہ جہاں تک نفع کی بات ہے تو بیوی نے مہر کی رقم اگر کاروبار میں شراکت کی نیت سے دی ہے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ زوجین فی صدی اعتبار سے باہم نفع متعین کر لیں ۔پھر جتنا مقرر ہو اتنا ہی بیوی کو نفع ملے گا۔(۲)
(۱) تجب علی الرجل نفقۃ امرأتہٖ المسلمۃ والذمیۃ والفقیرۃ والغنیۃ دخل بہا أو لم یدخل ، کبیرۃ کانت المرأۃ أو صغیرۃً ، یجامع مثلہا ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان ۔ سواء کانت حرۃ أو مکاتبۃ ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ :کتاب الطلاق / الباب التاسع عشر في النفقات ، الفصل الأول ،۵۴۴ /۱،زکریا قدیم )
(۲)منہا (شرائط جواز الشرکة) أن یکون الربح معلوم القدر․․․ وأن یکون جزء ًا شائعًا في الجملة لا معینا․․․ أما الشرکة بالأموال فلہا شروط، منہا أن یکون رأس المال من الأثمان المطلقة․․․ وہي الدراہم والدنانیر عنانًا کانت الشرکة أو مفاوضة․․․ولو کان من أحدہما دراہم ومن الآخر عروض فالحیلة فی جوازہ أن یبیع کل واحد منہما نصف مالہ بنصف دراہم صاحبہ ویتقابضاویخلطا جمیعًا حتی تصیر الدراہم بینہما والعروض بینہما ثم یعقدان علیہما عقد الشرکة فیجوز (بدائع الصنائع: ۷۷/۵ ،زکریا دیوبند)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:۲۹ جمادی الثانی ۱۴۴۰ھ
عیسوی تاریخ:6مارچ2019ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: