دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:208
قربانی سینگ ، زائداجزاء ،دوسراجانورخریدنا
کیافرماتےہیں علمائے کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ :
- قربانی کےجانورکی دونوں سینگوں کوایک آلہ کےذریعہ کاٹ کرجڑتک نکال دیاجائے اوراس سینگوں کی جگہ جوخلاء ہوتاہے اس کومصالحہ جات ودواوغیرہ لگاکر بھردیاجاتاہے جس کی وجہ سے کچھ عرصہ میں وہ زخم بھر( ٹھیک ہو) جاتاہے ۔کیاایسے جانور کی قربانی درست ہے ؟
مذکورہ عمل جانورکی خوبصورتی کےلیےکیاجاتاہے جس سے جانورمہنگےداموں میں فروخت ہوتاہے ۔
- زائدا جزاء والے جانوروں کی قربانی کرناکیساہے ؟ جیسے بکری کے تین تھن ہوں یا کوئی اور جزء زائد ہوتوایسے جانوروں کی قربانی کرناکیساہے ؟
- اگرایسے زائد اجزا ء والے جانوروں کاکوئی جزء کٹ جائے یاکاٹ دیاجائے جیسے بکری کے تین تھن تھے جس میں سے ایک یادوتھن کٹ گئے توایسی صورت میں یہ عیب قربانی سے مانع شمارکیاجائے گا یانہیں ؟
- اگرپہلاجانوربیچ کر دوسراجانور کم قیمت پرخریدلیاتووہ رقم جوبچ گئی ہےا س کاکیاحکم ہے؟ کیااس رقم کوچارہ وغیرہ میں استعمال کیاجاسکتاہے ؟
براہ کرم ان سوالات کے مدلل جوابات عنایت فرماکر ممنون فرمائیں اگرا ستاد محترم حضرت مولانامفتی محموداشرف عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے بھی تصدیق کرادیں توبہت نوازش ہوگی ۔
سائل : متعلم محمد عادل شیخ حیدرآباد
الجواب حامداومصلیاً
- جس جانورکےسینگ سوال میں ذکر کردہ طریقہ کےمطابق ختم کردیے گئے ہوں اس کی قربانی درست ہے بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے جانورکےسرپرا یساگہرازخم موجودنہ ہوجوجانورکےدماغ تک سرایت کرجائے کیونکہ قربانی کےدرست ہونے یانہ ہونے کااصل مدارعیب پر ہے کہ شریعت مقدسہ نےقربانی کےجانورمیں ایسے عیب کومعیوب قراردیاہےجوجانور کےمنافع میں رکاوٹ بنتاہواورسینگ جانور کاایساجزء نہیں ہے جس کے نہ ہونے سےجانورکےمنافع میں فرق آتاہو،نیزسوال میں ذکر کردہ طریقہ سے جانورمیں کوئی عیب پیدانہیں ہوتابلکہ یہ عمل اس کی خوبصورتی کےلیےکیاجاتاہے ۔لہذااس طرح کے جانورکی قربانی کرنےمیں شرعاًکوئی حرج نہیں ہے،جبکہ وہ معیوب نہ ہو۔ ( ماخذہ التبویب :90343)
بدائع الصنائع ( 5/75)
المحیط البرھانی (5/668)
حاشیۃ ابن عابدین (6/323)
- زائدا جزاء والے جانورکی قربانی سےمتعلق تلاش کے باوجودکوئی صریح جزئیہ نہیں ملا،البتہ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جوازسےمانع عیوب کے بارے میں یہ ضابطہ بیان فرمایاہے :” ہر وہ عیب جومنفعت یاخوبصورتی کوبالکلیہ ختم کردیتاہو،و ہ مانع عن الاضحیہ ہے ۔” دوسرا ضابطہ یہ بیان فرمایاہے : ” عیب یسیر مانع عن الاضحیۃ نہیں ہے اورعیب کثیر مانع ہے ،اور عیب یسیر وہ عیب ہے جو جانورکے گوشت پرا ثراندازنہ ہو”۔ا ن ضوابط کی روزنی میں آپ کے سوال کاجواب یہ ہے کہ صرف زائد اجزاء والا ہونا کوئی عیب نہیں ہے جوجانور کےکسی منفعت یاخوبصورتی کوبلکلیہ ختم کرتاہویااس کے گوشت پرا ثراندازہوتاہو ۔اس لیے بظاہر زائدا جزاء والے جانورکی قربانی کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، بشرطیکہ اس جانورمیں دوسرا کوئی ایساعیب نہ ہوجوقربانی سے مانع ہو۔
الفتاوی الھندیہ (5/299)
المبسوط للسرخسی (12/26)
- واضح رہےکہ قربانی کےجانورکے اعضاء اصلیہ میں سے کسی عضوکاپورااس کے کچھ حصے کاکٹ جانا مطلقاًقربانی کے جوازسے مانع نہیں ہوتا۔بلکہ بعض صورتوں میں یہ مانع عن الاضحیۃ عیب شمار ہوتا ہے، بعض میں نہیں ۔ مثلاًبکری کااگر ایک تھن کٹ جائے تواس کی قربانی جائزنہیں ہے لیکن گائے یابھینس کاایک تھن کٹ جائے تواس کی قربانی جائزہے ،دوتھن کٹ جائیں توجائزنہیں ہے ۔ جہاں تک زائدا جزاء کاتعلق ہے توزائد اجزاء کے کٹنے کی صورت میں قربانی کے جوازوعدم جوازسےمتعلق کتب فقہ میں کوئی صریح جزئیہ تونہیں ملا۔ تاہم اعضاء اصلیہ کے کٹنےکی صورت میں فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ذکر کردہ تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زائد جزء کوکاٹناقربانی کے جوازسےمانع نہیں ہوگا،بشرطیکہ زائد جزء کاٹنے کی وجہ سےاس جانور کے اندرکوئی اورایساعیب پیدانہ ہوجوقربانی سےمانع ہو۔
الھدایۃ شرح البدایۃ (4/73)
الفتاوی الھندیۃ (5/297)
فتاوی قاضیخان ( 3/210)
حاشیہ ابن عابدین (6/325)
الفتاوی الھندیۃ ( 5/294)
ایضاً الفتاوی الھندیۃ (5/307)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبداللہ ولی عفی عنہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
28 دسمبر 2015
الجواب الصحیح
احقرمحمد اشرف غفراللہ
اصغر علی
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/851634705205776/