قبر پر مقبرے بنانے کی شرعی حیثیت /ان پر جمع ہونے والے چندے کاحکم

فتویٰ نمبر:4054

سوال: السلام وعلیکم

جناب عالی

قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمان آولیاء اللہ ، مومن، متقی، پرھیزگار، باشریعت، دیندار اور دین کی تعلیم وترویج کیلئے معتبر اور ذمہ دار، یعنی اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت انکی زندگی کا اصل مقصد ہوتا تھا۔ 

اولیاء اللہ کی زندگی سے متعلق انکے حسب و نسب، والدین اولاد، مرشدین اور علمی درجات وغیرہ انکی اپنی تصانیف سے سچی معلومات ملتی ہیں۔ 

سینکڑوں سالوں سے تمام دنیا میں لوگ اپنے عزیز واقارب کو ان کی موت پر اپنے قریب ترین جگہ پر تدفین کرتے ھیں، پاکستان بننے سے پہلےکی اس طرح کی بے شمار قبریں ہمیں اکثر جگہوں پر نظرآتی ہیں جن کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتی۔ 

مفاد پرست لوگ ان نامعلوم قبروں پر مقبرے بنا کر اور مختلف جھوٹی روایات گڑھ کر اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔ ان مقبروں کے ساتھ بزنس کی دوکانیں بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ 

1۔ آپ سے شریعت اسلامی کے مطابق سوال ہے کہ ان قبروں پر جو مقبرے بنے ہوئے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ ان سے منسلک غیر قانونی معاملت حلال ہونگے ؟ 

3۔ ان قبروں پر جو چندہ کی رقم جمع ہوتی ہے اس کا معاملہ کیا ہوگا؟

والسلام

سائل کا نام:ام فروہ 

پتا:کراچی

الجواب حامدا ومصليا

1۔ گمنام قبروں کو اللہ کے نیک بندوں کی طرف منسوب کرکے اس پر مقبرہ، گنبد وغیرہ تعمیر کرنا قطعا ممنوع ہے اوریہ شرک اور بہت سی بدعات، خرافات وگمراہی پھلینے کا ذریعہ ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور اُن پر تعمیر کرنے سے ممانعت فرمائی ہے؛لہذا کسی بھی قبر کو پختہ بنانا اور اس پر عمارت تعمیر کرنا ہرگز جائز نہیں، بلکہ یہ تو خود ان اولیاء اللہ کی تعلیمات كے بھی خلاف ہے ۔

2 ۔ غیر قانونی طور جگہیں گھیر کر مزارات کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا، اس پر مقبرے بنانا، دکانات وغیرہ تعمیر کرنا ناجائز، سخت گناہ اورلوگوں کی اذیت کا بھی سبب ہے ۔

3۔ چندہ کی اس رقم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ فقراء کے لیے ہے تو اسے فقرا پر ہی خرچ کیا جائے گا اور اگر اس بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے نذر ومنت کے طور پر جمع ہوئی ہو تو وہ حرام مال کے حکم میں ہے، اس کا استعمال درست نہیں بلکہ ضروری ہے کہ وہ رقم بغیر ثواب کی نیت کے فقرا ومساکین میں صدقہ کردی جائے۔

چنانچہ کتاب النوازل میں ہے : 

’’مزارات پر عرس کرنا، میلے لگانا اور عرس کے موقع پر ٹھیکے داروں کو ٹھیکہ نیلام کرنا اور مزارات پر آنے والوں سے جبراً پیسہ وصول کرنا، نیز مزاروں پر عورتوں کا آنا جانا اور فواحش ومنکرات پھیلانا، نیز مزارات کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا، یہ سب باتیں شرعاً حرام اور ناجائز ہیں، شریعت میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے,, 

(مستفاد: فتاوی محمودیہ ۱۰/ ۱۰۱– ۱۰۲، فتاوی رحیمیہ: ۲/ ۳۰۸- ۳۱۸، ؍ ۳۲۲، فتاوی عثمانی: ۱/ ۱۲۲، کفایت المفتی: ۴/ ۱۸۴)

’’ اگر چڑھاوا پیروں اور مزاروں کے نام کا ہے تو اس کا چڑھانا اور کھانا ناجائز ہے، اور اگر وہاں کے فقراء کے لیے ہے تو فقرا کو کھانا درست ہے۔‘‘

( فتاوی محمودیہ :٤٥٤/٢ )

“مزاروں کے گلوں میں جو پیسے، پھول وغیرہ چیزیں چڑھائی جاتی ہیں وہ حرام ہیں۔اور اس طرح جمع ہوئی رقم کی مالک نہ درگاہ بنتی ہے، نہ درگاہ کی کمیٹی بلکہ پیسے ڈالنے والوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔اس لئے پیسے ڈالنے والوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے کام سے توبہ کریں ، اور پھر وہ اسے اپنے کام میں لا سکتے ہیں ۔ 

مسئولہ صورت میں پیسے ڈالنے والے شخص کون کون تھے؟ یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے یہ پیسے حرام مال کے حکم میں شمار ہو کر وہ پیسے خاص محتاجوں اور نادار غرباء کو مالک بنا کر ثواب کی نیت کے بغیر دے دیے جائیں ۔اور وہ لوگ اگر محتاج ہوں تو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں،جیسا کہ سخت مجبوری کے وقت مردہ جانور کا گوشت اپنی جان بچانے کے لیے کھا سکتے ہیں ۔”

(بحر: ٢٩٨/٢ ، در مختار: ١٢٨/٢)

(فتاوی دینیة : ٢٧٩/١)

ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر – رضي اللّٰہ عنہ – ’’ نہی رسول اللّٰہ ﷺ أن یجصص القبور وأن یعقد علیہ وأن یبنی علیہ ‘‘ ۔

(۱/۳۱۲ ، سنن أبي داود : ۲/۴۶۰ ، سنن الترمذي : ۱/۲۰۳ ، سنن النسائي : ۱/۲۲ ، سنن ابن ماجہ : ۱/۱۱۲)

’’قال رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔ وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ ، وکل بدعۃ ضلالۃ ، وکل ضلالۃ فی النار ۔,,

( صحیح ابن خزیمۃ : ۲/۸۶۴، رقم: ۱۷۸۵ ،کتاب الجمعۃ ، باب صفۃ خطبۃ النبی ﷺ ۔۔۔ )

’’إیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ۔,,

(ابو داؤد شریف : ۲/۶۳۵،کتاب السنۃ ، باب لزوم السنۃ ،) 

’’من أحدث فیہا حدثا، أو آویٰ محدثا، فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ، لا یقبل منہ صرف ولا عدل ۔,,

(صحیح البخاری: ۱/۲۵۱، رقم: ۱۸۳۲، ابوابفضائل المدینۃ ، باب حرم المدینۃ ، النسخۃ الہندیۃ )

” لایجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا، واتخاذ السراج والمساجد علیہا، ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرساً۔”

(تفسیر مظہری: ۲؍ ۶۵ زکریا)

ما في ’’ بذل المجہود ‘‘ : 

” یکرہ تطیین القبر من فوق أو تحت لما ورد إذا طین القبر لم یسمع صاحبہ الأذان ولا الدعاء ولا یعلم من یزورہ ۔”

(بذل المجهود : ۱۰/۵۱۵)

ما في ’’ کتاب الآثار للشیباني ‘‘ : ” ولا نری أن یزاد علی ما خرج منہ ، ونکرہ أن یجصص أو یطین أو یجعل عندہ مسجد أو علم أو یکتب علیہ ، ویکرہ الآجر أن یبنی بہ” 

(کتاب الآثار : ۶۱۶ ، رقم : ۲۵۶ ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح : ۶۱۱)

” وفی فتاویٰ الہندیۃ : 

” ویکرہ ان یبنی علی القبر مسجد او غیرہ کذا فی السراج الوہاج۔ “

(فتاویٰ عالمگیریۃ :۱۶۶/1، الفصل السادس فی القبر والدفن)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 27 جمادى الاخرى 1441هـ

عیسوی تاریخ: 5 مارچ ۲۰۱۹ء 

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم 

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں