فتویٰ نمبر:4095
سوال: جناب مفتیان کرام!
مباہلہ کی تعریف بتادیجیے وضاحت کے ساتھ اور اسکی مثال بھی۔
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
مباہلے کا مطلب یہ ہے کہ: جب لوگوں کا کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو تو سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس بات میں باطل پر ہو اس پر خدا کی طرف سے وبال اورہلاکت پڑے سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کی سزا بھگتے گا۔
حق بات ثابت کرنے اور باطل کو شکست خوردہ کرنے کیلیے مباہلہ کرنا شرعی طور پر جائز ہے، مباہلے میں حق بات ثابت ہو جانے کے باوجود بھی اسے نہ ماننے والے پر حجت قائم کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد نجران کے نصاریٰ کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں۔
(۱) اسلام قبول کرو۔
(۲) یا جزیہ ادا کرو۔
(۳) یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔
نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے اپنے کچھ آدمیوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں میں شرحبیل، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن قیص بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا اسی دوران آیت مباہلہ نازل ہوگئی آیت مباہلہ یہ ہے:
فَمَنْ حَاجَّکَ فَیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ العِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْ نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ واَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعنَتَ اللّٰہِ عَلَی الکٰذِبِیْنَ ․ (آل عمران:۶۱)
ترجمہ: “پھر اگر کوئی شخص علم (وحی) آ جانے کے بعد اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ اسے کہہ دو: آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلا لیں اور خود بھی حاضر ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
اس آیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ و حسینؓ کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے تیار ہوکر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت و بربادی یقینی ہے اس لئے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے اس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اتفاق کے بعد ان پر جزیہ مقرر کرکے صلح کرلی جس کو انھوں نے بھی منظور کرلیا۔ (معارف القرآن، ج:۲، ص: ۸۵)
شرحبیل کی اس حق گوئی سے یہ فائدہ ہوا کہ مسلمان اور نصاریٰ دونوں جنگ و جدل سے بچ گئے، جانی و مالی نقصان سے حفاظت ہوگئی اورکچھ ہی وقت کے بعد اہل نجران سب کے سب حق کو پہچان کر اسلام میں داخل ہوگئے، نتیجتاً اپنی دنیا بھی بنالی اور آخرت بھی۔
نیز مباہلہ کسی اہم ترین قطعی دینی معاملے پر ہوسکتا ہے اور مباہلہ کرنے سے اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کی امید ہو، لہذا مباہلہ کسی ایسے اجتہادی مسئلے پہ نہیں ہو سکتا جس میں اختلاف کی گنجائش پائی جائے۔ کیونکہ ان میں حق عند اللہ ہمیں نامعلوم ہے ہر ایک کے حق عند اللہ ہونے کا احتمال موجود ہے ۔
(فتاوی فریدیہ 1/131)
▪اَلۡحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ ٱلۡمُمۡتَرِینَ (٦٠) فَمَنۡ حَاۤجَّكَ فِیهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَاۤءَكَ مِنَ ٱلۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا۟ نَدۡعُ أَبۡنَاۤءَنَا وَأَبۡنَاۤءَكُمۡ وَنِسَاۤءَنَا وَنِسَاۤءَكُمۡ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡكَـٰذِبِینَ (آل عمران ٦١،٦٠)
▪ “السُّنَّة فى مجادلة أهل الباطل إذا قامت عليهم حُجَّةُ اللهِ ولم يرجعوا ، بل أصرُّوا على العناد أن يدعوَهم إلى المباهلة ، وقد أمر اللهُ سبحانه بذلك رسولَه ، ولم يقل : إنَّ ذلك ليس لأُمتك مِن بعدك ” انتهى من”زاد المعاد” (3 /643)
▪وہل المباہلة مشروعة بعد النبي صلی اللہ علیہ وسلم فذکر في ردالمحتار في باب الرجعة عن البحر معزیا إلی غایة البیان أنہا مشروعة عند الحاجة قال
الشیخ في بیان القرآن: إن في مشروعیة اللعان أقوی دلیل علی مشروعیة المباہلة ․(احکام
القرآن للشیخ ظفر احمد عثمانی التھانوی: ۲/۲۴)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:٢٥ جمادی الأخری ١٤٤٠
عیسوی تاریخ: ٣ مارچ ٢٠١٩
تصحیح وتصویب:
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
https://twitter.com/SUFFAHPK
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
www.suffahpk.com
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:
https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A