فتویٰ نمبر:4051
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
اگر مسلمان ہونے کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو تو کیا ایسی صورت میں وقتی طور پر جھوٹ بول کر یہ کہہ دینے سے کہ میں مسلمان نہیں تو کیا ایسا شخص داٸرٸے اسلام سے نکل جاٸے گا یعنی کافر ہوجاٸے گا؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
اصل ایمان تو تصدیق قلبی کا نام ہے اور زبان سے اقرار کرنا احکام کے لیے ضروری ہے غرض ایسی حالت میں جب کہ ایمان یعنی مسلمان ہونا کسی کی جانی نقصان کا سبب ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں
عزیمت: اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی مسلمانیت کا اقرار کرنا اس صورت میں اگرچہ اس کو جانی نقصان ہوگالیکن اس صورت میں عنداللہ اجر عظیم بھی ہے اور اسلام کی عظمت بھی
رخصت: اگر جان کا خطرہ ہو تو زبانی طور پر یا ظاہری طور پر ایمان سے انکار کرنا جب کہ تصدیق دل میں ہو تو ایسا شخص اضطراری حالت میں خود کو کافر ظاہر کرسکتاہے اور ایسا کرنے سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
”ثم ذکر فی فضل الاکراہ علی الکفر انہ اذا امتنع من ذلک حتی قتل لم یکن آثما وقد بینا انہ ماجور فیہ کما جاء فی الاثر ان المجبر فی نفسہ فی ظل العرش یوم القیامة ان ابی الکفر حتی قتل و حدیث خبیب ؓفیہ معروف واشار الیھالاصل الذی بینا ان اجراءکلمة الشرک فی ھذہ الحالة رخصة لہ والامتناع ھو العزیمة فان ترخص بالرخصة وسعہ وان تمسک بالعزیمة کان افضل لہ: لان فی تمسکہ بالعزیمة اعزاز الدین وغیظ المشرکین فیکون افضل“
(المبسوط: ٤٩٤٢ )
”النوع الذی ھو مرخص فھو اجراءکلمة الکفرعلی اللسان مع اطمٸنان القلب بالایمان اذا کان الاکراہ تاما وھو محرم فی نفسہ مع ثبوت الرخصة فآثر الرخصة فی تغیر حکم الفعل وھو المٶاخذة لا فی تغیر وصفہ وھو الحرمة لان کلمة الکفر مما لا یحتمل الاباحة بحال فکانت الحرمة“
(بداٸع وصناٸع : فصل فی بیان حکم مایقع علیہ الاکراہ: ١٩٠٧ )
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:١٥جمادی الاخرة ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ:٢٢ فروری٢٠١٩ ۶
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: