رویت ہلال میں غیرسرکاری کمیٹیوں کا شرعا اعتبار نہیں ہے۔

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:206

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی حکومت پاکستان کا تشکیل کردہ ادارہ ہے جس کی ذمہ داریوں میں ہلال دیکھنا، اس کے متعلق شہادتیں قبول کرنا اور رمضان ، عیدین اور دیگر اسلامی مہینوں کے لیے رؤیت ہلال کا اعلان کرنا شامل ہے۔ اور یہ بات واضح کرتا چلوں کہ حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹیوں میں ملک کے تمام مسالک یعنی دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، اہل تشیع کے سرکردہ علماء حضرات شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کمیٹی کے ساتھ فنی ماہرین، جن میں محکمہ موسمیات پاکستان نیوی اور سپار کو کے نمائندے فنی معاونت کے لیے موجود ہوتے ہیں، علاوہ ازیں شہادتوں کو ہر اعتبار سے پرکھنے اور تمام ارکان، علماءکرام اور فنی ماہرین سے مشاورت کے بعد ان سب کی متفقہ رائے کی روشنی میں تمام ممبران کی موجودگی میں چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی میں موجون مسلک دیوبند کی معروف دینی درسگاہ جامعتہ الرشید میں قائم شعبہ فلکیات کے سربراہ مولانا سلطان عالم ہمیشہ چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ان کے تقریبا پچاس مراکز قائم ہیں اور ان کی ماہانہ رپورٹس روزنامہ اسلام اور ضرب مومن میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خود چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی چاند کے حتمی اعلان سے قبل مزید تشفی کے لیے جامعتہ الرشید کے شعبہ فلکیات کے ماہرین سے رابطے میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے سابقہ تمام اعلانات جامعتہ الرشید کی اعلان کردہ تاریخ سے موافقت رکھتے ہیں۔ جبکہ مسجد قاسم علی خان کے علماء کا اعلان رؤیت جامعتہ الرشید کی اعلان کردہ تاریخ سے عموما ایک دن پہلے ہوتا ہے۔دھر صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ اضلاع میں بعض غیر سرکاری کمیٹیاں بشمول مسجد قاسم خان کے حکومتی کمیٹی کے علی الرغم لوگوں سے شہادتیں وصول کرتے ہیں اور رمضان اور عیدین کا اعلان کرتے ہیں۔ ان حضرات کے اعلان کے بموجب ان علاقوں کے لوگ روزے رکھنا شروع کرتے ہیں اور عیدین مناتے ہیں، حالانکہ پشاور، مردان اور چار سدھ جہاں ہر سال چاند کے پہلے نظر آنے کا اعلان کردیا جاتا ہے یہ وہ علاقے ہیں جو جغررافیائی لحاظ سے صوبہ سندھ کے ساحلی علاقے کراچی اور بدین وغیرہ کے بنسبت مشرق میں ہیں جہاں سورج مغربی علاقوں (کراچی وغیرہ) کے بنسبت آدھا گھنٹہ پہلے غروب ہوتا ہے اور مغربی علاقوں میں آدھا گھنٹہ بعد غروب ہوتا ہے( جس کی وجہ سے کراچی میں چاند کی عمر پشاور کے چاند کے عمر سے آدھا گھنٹہ بڑھ جاتا ہے) تو اس لحاظ سے کراچی والوںکو چاند دیکھنے کا امکان بنسبت پشاور والوں کو زیادہ ہونا چاہیے حالانکہ پشاور وغیرہ میں اکثر عام اور ان پڑھ لوگوں کا چاند دیکھنے کے باوجود کراچی میں ماہرین فلکیات کو اپنی کوششوں سمیت چاند نظر نہیں آتا جوکہ سوچنے کی بات ہے۔ اس تناظر میں چند سوالات حل طلب ہیں۔ 

(١)کیا ریاست کی طرف سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور صوبائی و ضلعی سطح پر زونل سرکاری کمیٹیوں کے ہوتے ہوئے ایسی غیر سرکاری کمیٹیاں قائم کرنا جائز ہے؟ یہ حضرات جو عام لوگوں سے شہادتیں اکثر بغیر جانچ پڑتال کے اور بعض دفعہ صرف فون پر (جس میں شاہد کے حالات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا) وصول کرتے ہیں اور ہلال عید ورمضان کا اعلان کرتے ہیں کیا ان لوگوں کا اعلان شرعی قاضی کے اعلان کے حکم میں ہوگا؟ اگر نہیں تو ان کے لیے اس طرح کے اعلانات کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مزید برآں عام لوگوں کے لیے ان کے اعلان پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز کیا رؤیت ہلال کی شہادت قبول کرنے کے لیے دارالقضاء شرط ہے یا نہیں؟

(٢)جن علاقوں میں ان غیر سرکاری کمیٹیوں کے اعلان پر اکثر لوگ روزہ رکھیں یا عید منائیں تو کسی فرد کے اسی علاقے میں شخصی طور پر مرکزی حکومتی کمیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی مخالفت جائز ہے یا نہیں؟یا یہ کہ وہ شخص تو روزہ مرکزی ہلال کمیٹی کے اعلان کےموافق ( ان پر اعتماد کرتے ہوئے) رکھیں لیکن مجبورا( اپنے گاؤں اور گھروالوں کے ساتھ عدم اتفاق اور خفگان سے بچنے کے لیے) عید غیر سرکاری کمیٹی کے اعلان کے مطابق کریں تو کیا ایسا کرسکتا ہے یا نہیں؟

٣)بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان حضرات کے اعلان کے حساب سے شوال کا مہینہ ٣١ دن کا ہو جاتا ہے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس دن یہ لوگ رؤیت کا اعلان کرتے ہیںاس کے ایک روز بعد بھی رؤیت نہیں ہو پاتی اور سرکاری کمیٹی عدم رؤیت کا اعلان کرتی ہے تو اب کے اعلان پر جن لوگوں نے عید منائی ہے ان پر قضاء واجب ہے یا نہیں؟ 

معتبرات فقہ حنفی کی تصریحات کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔

نوٹ: استفتاء کے ساتھ مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک رسالہ بھی منسلک کردیا ہے جس میں انہوں نے رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کی تائید کی ہے ملاحظہ ہو۔

بندہ محمد سلیمان خادم شعبہ تجوید

مدرسہ مرکزی دارالقراء بہادریہ کوہاٹ شہر k.p.k

الجواب حامدا ومصلیا

(١)ریاست کی طرف سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور اس کی ذیلی صوبائی کمیٹیوں کے ہوتے ہوئے متوازی غیر سرکاری کمیٹیوں کا شرعا کوئی اعتبار نیب ہے اور نہ ان کے فیصلوں کے مطابق عمل کرنا اور کروانا درست ہے، کیونکہ ریاست کی طرف سے جو مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم ہے اس کی حیثیت قاضی کی ہے اور شرعا چاند کی رؤیت کے اعلان کی ولایت اسے ہی حاصل ہے، لہذا اگر مرکزی کمیٹی رمضان یا عید کے چاند نظر آنے کا اعلان کرے تو یہ فیصلہ ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا تمام اہل پاکستان کے لیے ضروری ہے اور اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا علماء کرام کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو مرکزی کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کروانے کی کوشش کریں، کیونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو ولایت عامہ حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ شہادتوں کو وصول کرسکتی ہےجو عیدین اور بعض صورتوں میں رمضان کے لیے ضروری ہیں، نیز مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کرنے سے امت فتنہ و انتشار سے بچ جاتی ہے، اس کے برخلاف متوازی غیر سرکاری کمیٹیوں کو چونکہ ولایت عامہ حاصل نہیں ہے اس لیے وہ شہادتوں کو وصول نہیں کرسکتیں، نیز متوازی کمیٹیوں کے اعلانات کے مطابق عمل کرنے سے عوام میں فتنہ و انتشار پیدا ہوتا ہے، قتل و قتال تک نوبت آجاتی ہے، لوگ دین اور اہل دین کے بارے میں شبہات کو شکار ہوجاتے ہیں اور سوء ظن میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کا مشاہدہ ہر سال رمضان اور عیدین کے موقع پر ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں متوازی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ ( مستفاد من التبویب: ١٥٤٣/٥٣)

رؤیت ہلال کہ شہادت قبول ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ مجلس قضاء کا ہونا بھی شرط ہے۔( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے رسالہ” رؤیت ہلال” مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ)

(٢)مسئولہ صورت میں ان لوگوں پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ اور عید کرنا لازم ہے؛ کیونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو پورے ملک میں ولایت حاصل ہے، اس لیے اس کا اعلان پورے ملک کے لیے حجت ہے، جبکہ متوازی غیر سرکاری کمیٹیوں کے پاس ولایت نہیں ہے، لہذا ان کا اعلان بھی عام لوگوں کے حق میں حجت نہیں ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی لازم نہیں ہے، اس سلسلے میں علماء کرام اور پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کےاعلان کے مطابق عمل کروانے کی کوشش کریں، نہ کہ غیر سرکاری کمیٹیوں کی موافقت کرکے غلط طرز عمل کی مزید تائید کریں۔

(۳)صورت مسئولہ میں جب سرکاری طور پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے عید کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا، اس کے باوجود جن لوگوں نے غیر سرکاری متوازی کمیٹیوں کے اعلان کے مطابق عید منائی ہے، ان کے ذمہ لازم ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلانِ عيد کے حساب سے ان کے جتنے روزے ضائع ہوئے ہیں ان کی قضاء کریں۔

صحيح البخارى(٦٣/٩):

عن عبدالله رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ((السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره، ما لم يؤمر بمعصية، فإذا أُمِر بمعصية فلا سمع ولا طاعة))

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (٤٢٢/٥)

(قَوْلُهُ: أَمْرُ السُّلْطَانِ إنَّمَا يَنْفُذُ) أَيْ يُتَّبَعُ وَلَا تَجُوزُ مُخَالَفَتُهُ وَسَيَأْتِي قُبَيْلَ الشَّهَادَاتِ عِنْدَ قَوْلِهِ أَمَرَك قَاضٍ بِقَطْعٍ أَوْ رَجْمٍ إلَخْ التَّعْلِيلُ بِوُجُوبِ طَاعَةِ وَلِيِّ الْأَمْرِ وَفِي ط عَنْ الْحَمَوِيِّ أَنَّ صَاحِبَ الْبَحْرِ ذَكَرَ نَاقِلًا عَنْ أَئِمَّتِنَا أَنَّ طَاعَةَ الْإِمَامِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَاجِبَةٌ فَلَوْ أَمَرَ بِصَوْمٍ وَجَبَ اهـ وَقَدَّمْنَا أَنَّ السُّلْطَانَ لَوْ حَكَمَ بَيْنَ الْخَصْمَيْنِ يَنْفُذُ فِي الْأَصَحِّ وَبِهِ يُفْتَی

الدر المختار (٣٨٦/٢)

(ولو كانوا ببلدة لا حاكم فيها صاموا بقول ثقة وأفطروا بإخبار عدلين) مع العلة( للضرورة)

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (٣٨٧/٢)

(قوله: للضرورة) أي ضرورة عدم وجود حاكم يشهد عنده

فتح القدير للكمال ابن الهمام(٣٢٥/٢)

وَأَمَّا عَلَى قِيَاسِ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ: فَيَنْبَغِي أَنْ تُشْتَرَطَ الدَّعْوَى فِي هِلَالِ الْفِطْرِ وَهِلَالِ رَمَضَانَ اهـ.وَعَلَى هَذَا فَمَا ذَكَرُوا مِنْ أَنَّ مَنْ رَأَى هِلَالَ رَمَضَانَ فِي الرُّسْتَاقِ وَلَيْسَ هُنَاكَ وَالٍ وَلَا قَاضٍ، فَإِنْ كَانَ ثِقَةً يَصُومُ النَّاسُ بِقَوْلِهِ، وَفِي الْفِطْرِ إنْ أَخْبَرَ عَدْلَانِ بِرُؤْيَةِ الْهِلَالِ لَا بَأْسَ بِأَنْ يُفْطِرُوا يَكُونُ الثُّبُوتُ فِيهِ دَعْوَى، وَحُكْمٌ لِلضَّرُورَةِ، أَرَأَيْت لَوْ لَمْ يُنَصَّبْ فِي الدُّنْيَا إمَامٌ وَلَا قَاضٍ حَتَّى عَصَوْا بِذَلِكَ أَمَا كَانَ يُصَامُ بِالرُّؤْيَةِ فَهَذَا الْحُكْمُ فِي مُحَالِ وُجُودِهِ.

بدائع الصنائع فى ترتيب الشرائع(٢٧٧/٦)

وَأَمَّا الَّذِي يَخُصُّ الْمَكَانَ فَوَاحِدٌ، وَهُوَ مَجْلِسُ الْقَاضِي؛ لِأَنَّ الشَّهَادَةَ لَا تَصِيرُ حُجَّةً مُلْزِمَةً إلَّا بِقَضَاءِ الْقَاضِي فَتَخْتَصُّ بِمَجْلِسِ الْقَضَاءِ

الدر المختار(٣٨٤/٢)

(رَأَى) مُكَلَّفٌ (هِلَالَ رَمَضَانَ أَوْ الْفِطْرِ وَرُدَّ قَوْلُهُ) بِدَلِيلٍ شَرْعِيٍّ (صَامَ) مُطْلَقًا وُجُوبًا وَقِيلَ نَدْبًا (فَإِنْ أَفْطَرَ قَضَى فَقَطْ) فِيهِمَا لِشُبْهَةِ الرَّدِّ.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (٣٨٤/٢)

لَوْ صَامَ رَائِي هِلَالِ رَمَضَانَ وَأَكْمَلَ الْعِدَّةَ لَمْ يُفْطِرْ إلَّا مَعَ الْإِمَامِ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «صَوْمُكُمْ يَوْمَ تَصُومُونَ وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ وَالنَّاسُ لَمْ يُفْطِرُوا فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ فَوَجَبَ أَنْ لَا يُفْطِرَ نَهْرٌ

مراقى الفلاح نور الايضاح(٢٤١)

“ومن رأى هلال رمضان” وحده “أو” هلال “الفطر وحده ورد قوله” أي رده القاضي “لزمه الصيام” لقوله تعالى: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} وقد رآه ظاهر ولقوله صلى الله عليه وسلم: “صومكم يوم تصومون وفطركم يوم تفطرون” والناس لم يفطروا فوجب أن لا يفطر …..”وإن أفطر” من رأى الهلال وحده “في الوقتين” رمضان وشوال “قضى” لما تلونا وروينا “ولا كفارة عليه” ولا على صديق للرائي إن شهد عنده بهلال الفطر وصدقه فأفطر لأنه يوم عيد عنده فيكون شبهة

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق(٣١٨/١)

(فأن أفطر قضى فقط) أي أن أفطر بعد ما رد الامام شهادته والمسألة بحالها يجب عليه القضاء ولا تجب عليه الكفارة أما الفطر فى هلال الفطر فظاهر لأنه يوم عيد عنده فيكون شبهة.

محمدابوبکر غفراللہ لہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
24/11/1436ھ
9۔9۔2015

پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/813377139031533/

اپنا تبصرہ بھیجیں