نکاح خواں کی اجرت کس پر واجب ہے؟

فتویٰ نمبر:4057

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎!

ﮐﯿﺎﻓﺮﻣﺎﺗﮯﮨﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯﮐﺮﺍﻡ ﻭﻣﻔﺘﯿﺎﻥ ﻋﻈﺎﻡ ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﮯﺑﺎﺭﮮﻣﯿﮟ ﮐﮧ

”جب کسی عورت اور مرد کا نکاح ہوتا ہے تو نکاح خواں کا بندوبست یعنی اتظام کرنا یعنی نکاح خواں کو نکاح پڑھانے کے لیے لانا کس کی زمہ داری ہے اس مرد کی یا اس عورت کی؟

جزاك اللهُ‎ خیر۔

والسلام

سائل کانام:فضل ربی 

پتا:ساٸٹ میٹروویل

الجواب حامداو مصليا

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎!

نکاح خواں کی اجرت بلانے والے پر ہوگی عرف ورواج کی بناءپر بغیر بلاٸے کسی ایک فریق کو اجرت دینےپر مجبور کرنا جاٸز نہیں جیسا کہ بعض جگہ دستور ہے کہ نکاح خواں کو دلہن والے دولہا والوں کی اجازت کے بغیر بلاتے ہیں اور اجرت دولہا والوں سے دلواتے ہیں جو اجرت علی غیر المستاجر ہونے کی وجہ سے ناجاٸز ہے

لیکن اگر لڑکے والے بخوشی دینے پر راضی ہوں تو لڑکی والوں کی طرف سے بلانے کے باوجود لڑکے والے اجرت دے سکتے ہیں ۔

(ماخذہ امداد المفتین: ٨۶٨ ;اشرف الفتاوی)

”والاجازة تلحق الاجارة الموقوفة بشروط،منھا قیام المعقود علیہ فاذا اجر الفضولی واجاز المالک العقد ینظر: 

ان اجازالعقد قبل استیفاء المنفعة جازت اجارتہ وکانت الاجرة للمالک لان المعقود علیہ قاٸم ۔

وان اجاز العقد بعد استیفاء المنفعة لم تجز اجارتہ وکانت الاجرة للعاقد لان المنافع المعقود علیھا تلاشت فی الماضی فتکون عند الاجازة معدومة فلایبقی العقد بعدٸذ لفوات محلہ فلاتصح الاجارة کما عرفنا فی عقد البیع ویصیر العاقد الفضولی حینٸذ غاصبا بالتسلیم“

(الفقہ الاسلامی وادلتہ: ٢٦٩٨)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:١٠جمادی الاخرة ١٤٤٠ ھ

عیسوی تاریخ:١٧فروری ٢٠١٩ ۶

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں