فتویٰ نمبر:4022
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الائیڈ بینک کے اکاؤنٹ میں رقم پہ جو سود کی رقم آئے کیا اسے کسی مسلمان کو جو مستحق ہو، بغیر ثواب کی نیت سے دیا جا سکتا ہے؟
زوجہ بابر
والسلام
الجواب حامداو مصليا
مذکورہ صورت میں سود کی رقم بغیر ثواب کی نیت کسی مستحق کو دینا ضروری ہے ، سود کی رقم خود استعمال کرنا جائز نہیں ۔تاہم سودی اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے کا گناہ بہرحال ہوگا ،کیونکہ وہ قرض پر اضافہ ہے جو” سود” ہے ۔
“كل قرض جر منفعة فهو ربا”( کنز العمال ،رقم الحدیث:١٥٥١٦ ،٦ /٢٣٨),
وكذا في الجامع الصغير : ٦ / ٩٤ .)
یہ بات ذہن میں رہے کہ ابتدا میں علمائے کرام کا فتویٰ بینک سے سود وصول کرنے کے بارے میں ناجائز کا تھا کہ اول لیا ہی نہ جائے اگر وصول کرلیا تو بلا نیت ثواب صدقہ کردیا جائے، اس پر مزید تحقیق کی گئی تو اب اس بات پر فتویٰ دیا گیا ہے کہ سود وصول کرلیا جائے اور کسی مستحق کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیا جائے ۔
بینک میں رقم رکھوانے کی بہترین صورت یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکرز میں رکھوائی جائے جن میں سود کی رقم نہیں ملتی ۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.
(سورة البقرة:275)
“فی الاشباه کل قرض جر نفعا فھو حرام “(الدرالمختار : ٥ /١٦٦)
فتاوی شامی میں ہے:
’’وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ علي صاحبه اھ”
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:30جمادی الاولی
عیسوی تاریخ:5فروری 2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: