فتویٰ نمبر: 3082
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم۔۔ایک خاتون نے ہمبستری کے بعد غسل کرلیا اور ایک نماز بھی ادا کرلی۔۔نماز ادا کرنے کے بعد پھر پانی کا اخراج ہوا۔۔انہوں نے اسکو دھوکر وضو کر کے پھر دوسری نماز بھی ادا کرلی۔۔تو یہ طریقہ صحیح ہے یا غسل کرنا ضروری تھا؟؟اور جو دو نمازیں پڑھیں وہ لوٹانی پڑیں گی؟؟مہربانی فرماکر جلدی جواب عنایت فرمادیجۓ۔
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
غسل کے بعد منی خارج ہو تو اس میں قدرے تفصیل ہے۔
اگر صحبت کے بعد غسل سے پہلے سوگئی تھی یا پیشاب کرلیا تھا یا کچھ قدم دور چلی تھی پھر غسل کے بعد بغیر شہوت منی خارج ہوئی تو دوبارہ غسل واجب نہیں، صرف وضو ٹوٹا۔ لہذا نمازیں بھی درست ہوگئیں ۔ لیکن اگر صحبت کے فورا بعد ان امور سے پہلے غسل کیا تھا تو اس صورت میں دوبارہ غسل کرے لیکن جو نماز انزال سے پہلے پڑھی تھی اس کا اعادہ نہ کرے ۔
(ماخوذ من امداد الفتاوی :٧٨ )
وانما یجب علیہ الغسل فی ھذہ الحالة عند ابی حنیفہ،ومحمد بشرط ان لا یبول قبل الاغتسال او یمشی او ینتظر زمنا بعد خروج المنی فان فعل شیٸا من ھذہ الاشیا۶ ثم اغتسل ونزل منھا المنی بعد ذلک فانھا لا غسل علیہ اما المنی الخارج لا بسبب لذہ کما اذا ضربہ احد علی صلبہ فامنی او کان مریضا مرضا یترتب علیہ نزول المنی بدون لذة فانہ لا غسل علیہ
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:٩٨)
فی الخانیة خرج منی بعد البول وذکرہ منتشر لزمہ الغسل قال فی البحر و محملہ ان وجد الشھوة وھو تقیید قولھم بعدم الغسل بخروجہ بعد البول فی ردالمختار ای فیقال ان عدم وجوب الغسل بخروجہ بعد البول اتفاقا اذالم یکن ذکرہ منتشرا فلو منتشرا لوجب لانہ انزال جدید وجد معہ الدفق و الشھوة اقول وکذا یفید عدم وجوبہ بعد النوم والمشی الکثیر
(امداد الفتاوی: ٧٨ )
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:٢٠جمادی الاول١٤٤٠
عیسوی تاریخ:٢٦ جنوری٢٠١٩ ۶
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: