فتویٰ نمبر:3029
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
مدرسے میں پیسوں کی ضرورت تھی ، زید نے اپنے پاس سے دے دیے۔ پھر اس کے پاس کہیں سے مدرسے کے لیے عطیہ آیا۔ اب زید عطیہ کردہ پیسوں کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟ انہی پیسوں کے بدلے میں جو اس نے بوقت ضرورت اپنے پاس سے دیے تھے۔ واضح رہے کہ اپنے پاس سے دیتے وقت زید کی ایسی کوئی نیت نہیں تھی کہ جب مجھے کوئی مدرسے کے لیے دے گا تو میں خود رکھ لوں گا۔ اب کیا حکم ہے؟ کیا کسی کے دیے پیسے وہ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
فقہا کرام کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ صدقہ دینے والے کا واپس لینا درست نہیں کیونکہ صدقہ کا جو مقصد ہے اس کو حاصل ہو گیا یعنی ثواب۔ اس لیے مذکورہ صورت میں زید کا ان پیسوں میں تصرف جائز نہیں۔ اس لیے کہ پیسے دیتے وقت نیت قرض کی نہیں تھی۔
“وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه ليس لنا مثل السوء ” . رواه البخاري
{مشکوۃ: ۳/۲۳۳}
” الصدقۃ بمنزلۃ الھبۃ فی المشاع و غیر المشاع و حاجتھا الی القبض الا انہ لارجوع فی الصدقۃ اذا تمت۔”
{الھندیہ: ۵۵/۲۴۸}
فقط
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:۹ جمادی الاولی ۱۴۴۰
عیسوی تاریخ:۱۵ جنوری ۲۰۱۹
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: