فتویٰ نمبر:2016
سوال:محترم جناب مفتیان کرام!
اگر کوئی عورت اپنا زیور بیچنا چاہے اور پچھلے سال کی زکوٰۃ اس پر رہ گئی ہو جو کہ رمضان سے پہلے ادا کرنی ہو اور اس کے گھر کے حالات خراب ہوں،شوہر کی کمائی پوری نہ ہو،مالی طور پر کمزور ہو تو کیا زکوٰۃ کے پیسے نکال کر خود اپنے بچوں اور گھر کی خرچوں میں لے سکتے ہیں؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
تمہیداً یہ بات عرض ہے کہ زکوٰۃ اپنے اصول اور فروع (یعنی جن کے ساتھ پیدائش کا تعلق ہے مثلاً والدین اور ان کے والدین ،اولاد اور ان کی اولاد وغیرہ) کو نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور نہ ہی اپنے اوپر یا گھریلو استعمال میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی۔
ولا یدفع المزکی زکوٰۃ مالہ الی ابیہ و جدہ وان علی ولا الی ولدہ وولدولدہ وان سفل ولا الی امرأتہ (الہدایہ:۲۲۳/۱،رحمانیہ)
تمہید کے بعد اب مذکورہ سوال کا جواب یہ کہ یہ خاتون زکوٰۃ کی رقم اپنے استعمال میں خرچ نہیں کر سکتیں، البتہ اگر ان کو خود رقم کی ضرورت ہے تو وہ فی الحال اپنے اوپر خرچ کر لیں، پھر زکوٰۃ یا تو تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کرتی رہیں یا اگر تھوڑی تھوڑی ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں تو پھر ابھی زکوٰۃ ادا نہ کریں جب اتنی رقم آجائے جو ان کی ضروریات سے زائد ہو تو پھر زکوٰۃ ادا کردیں۔ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتی رہیں۔ فقط
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:18 ربیع الاول 1440ھ
عیسوی تاریخ:27 نومبر 2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: