ذکربالجہروالخفی فی المسجد

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ذکر بالجہر انفرادی اور اجتماعی مسجد کے اندر قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ نہیں۔ برائے مہربانی مسئلہ مع حوالہ کے ساتھ ارسال فرمادیں۔

المستفتی- عبدالسلام

الجواب حامداومصليا

ذکر میں اصل اخفاء اور سر ہے، اور چند شرائط کے ساتھ ذکر میں جہر بھی ثابت ہے، اور جائز ہے، ذیل میں ملاحظہ ہو:

واذكر ربک فی نفسك( أي سرا ) تضرعا (تذلل) ا و خيفة (خوفا منه و فوق السر) دون الجهر من القول ( أي قصدا بینهما) بالغدو والآصال ( اوائل النهار وأواخره) ولا تكن من الغافلين (عن ذكر الله) (جلالين)

واختار بعض المحققين أن المراد دون الجهر البالغ أو الزائد على قدر الحاجة فيكون الجهر المعتدل والجهر بقدر الحاجة داخلا في المامور به فقد صح ما يزيد على عشرين حديثا في أنه صلى الله عليه و سلم كثيرا ما كان يجهر بالذكر وصح عن أبي الزبير أنه سمع عبد الله ابن الزبير يقول : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا سلم من صلاته يقول بصوته الاعلى لا إله إلا الله وحده لا شریک له له الملك وله الحمد وهو على كل شئ قدير لا حول ولا قوة إلا بالله ولا نعبد إلا إياه له النعمه وله الفضل وله الثناء الحسن لا اله إلا الله مخلصين له الدين ولو كره الكافرون وهو محمول على اقتضاء حاجة التعليم ونحوه لذلك وما في الصحيحين من حديث أبي موسى الأشعري قال : كنا مع النبی صلى الله عليه و سلم و كنا إذا اشرفنا على وادھللنا وكبرنا وارتفعت اصواتنا فقال النبی  صلى الله عليه و سلم : يا أيها الناس اربعوا على أنفسكم فانكم لا تدعون أصم ولا غائبا انہ  معكم أنه سميع قريب محمول على أن النهي المستفاد التزاما من أمر اربعوا الذي بمعنی ارفقوا ولا تجهدوا أنفسكم مراد به النهي عن المبالغة في رفع الصوت وبتقسيم الجهر واختلاف اقسامه في الحكم يجمع بين الروايتين المختلفتين عن الأمام أبي حنيفة وما ذكر في الواقعات عن ابن مسعود من أنه رأى قوما يهللون برفع الصوت في المسجد فقال : ما اراكم إلا مبتدعين حتى أخرجه من المسجد لا يصح عند الحفاظ من الأئمة المحدثين وعلى فرض صحته هو معارض بما يدل على ثبوت الجهر منه رضي الله تعالی عنه مما رواه غير واحد من الحفاظ أو محمول على الجهر البالغ وخبر خير الذكر الخفی وخير الرزق أو العيش ما یکفی صحیح وعزاه الأمام السيوطی إلى الأمام احمد و ابن حبان والبيهقي عن سعد ابن أبي وقاص وعزاه أبو الفتح في سلاح المؤمن إلى أبي عوانه في مسنده الصحيح أيضا وهو محمول على من كان في موضع يخاف فيه الرياء او الأعجاب أو نحوهما وقد صح أيضا أنه عليه الصلاة و السلام جهر بالدعاء وبالمواعض لكن قال غير واحد من الأجلة : أن اخاء الدعاء افضل وحد بالجهر على ما ذكره ابن حجر الهيتمي في المنهج القويم أن يكون بحيث يسمع غيره و الأسرار بحيث يسمع نفسه وعند الحنفيه في رواية ادني الجهر اسماع نفسه وادنى المخافتة تصحيح الحروف وهو قول الكرخی (روح المعانی)

 بآواز بلند ذکر وغیرہ کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ:

(1) اس سے کسی عبادت گزار کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔

 (۲) آرام کرنے والے کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔

 (۳) کسی بیمار کو اس سے تکلیف لاحق نہ ہو۔

(٤) شرعی نقطہ نظر سے ذکر بالجہر (بآواز ہونے )یا اس کے لئے اجتماع کوضروری یازیادہ ثواب کا موجب نہ سمجھا  جائے۔ (۵) جہرمفرط نہ ہو، یعنی بہت زیادہ تیز آواز میں نہ ہو، جس سے ذاکر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالے۔

اگریہ شرائط موجود ہوں ، تو اس صورت میں بآواز بلند ذکر وغیرہ جائز ہے، خواہ انفرادا ہو، یا کسی مصلحت کی بناء پر اجتماعا ہو، جیسا کہ صوفیاء کرام کے ہاں ہوتا ہے، اور اگریہ  شرائط موجود نہ ہوں ، تو جائز نہیں۔

یہ توذکر کا اصولی حکم ہے لیکن آج کل بعض سلاسل میں اجتماعی ذکر کا جو طریقہ کار چل رہا ہے، اس میں عموما متعدد مفاسد پائے جاتے ہیں، اور مذکورہ شرائط کا خیال نہیں رکھا جاتا مثلا ذکر بالجہر میں افراط سے کام لیا جاتا ہے، اس کو مقصود  اصلی سمجھا جاتا ہے، جو اس طرح ذکر نہ کرے یا سرا یا انفرادا کرے، اس کو کم تر سمجھا جاتا ہے، اور سب سے بڑا مفسد ہ یہ پایا جاتا ہے کہ ذکر میں جہراور اجتماع کو زیادہ باعث خیر و ثواب سمجھا جاتا ہے، بلکہ اجتماع کو لازم سمجھا جاتا ہے، اور جو اس میں شریک نہ ہو اس پر طعن وتشنیع کی جاتی ہے، تو ان مفاسد کے ساتھ اجتماعی  ذ کر کرنا اور کرانا جائز نہیں ۔ والله تعالی اعلم

عصمت اللہ عصمه الله .

دارالافتاء جامعہ  دار العلوم کراچی ۱۴

۱۰ربیع الاول/۱۴۳۵ھ

١٢/جنوری۲۰۱۴ء

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/728002514235663/

اپنا تبصرہ بھیجیں