فتویٰ نمبر:1076
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال :-کیا فرما تے ہیں علماء کرام ومفتیان شرع عظام اس مسئلہ کے بارے میں نماز کے سنتوں کے بعد اجتماعی دعا ثابت ہے یانہیں اکثر علماء اس کا اہتمام کرتے ہے ۔
مدلل جواب مطلوب ہے
اسید محمود
اسلام آباد
الجواب حامدۃ ومصلیہ
سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا ,اس کو ضروری اور واجب سمجھنا اور اس کے ترک کرنے والے کو ملامت کرنا اچھا نہیں ہے لہذا شرعاً سنتوں کے بعد دعا کا اس طرح التزام درست نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے.
” ورحم اﷲ طائفۃ من المبتدعۃ فی بعض اقطار الھند حیث واظبوا علی ان الامام ومن معہ یقومون بعد المکتوبۃ بعد قرائتھم اللھم انت السلام ومنک السلام الخ۔
ثم اذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوالامام عقب الفاتحۃ جھراً بدعاء مرۃ ثانیۃً والمقتدون یؤمنون علی ذلک وقد جری العمل منھم بذلک علی سبیل الالتزام والدوام حتی ان بعض العوام اعتقدوا ان الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الامام والمأمومین ضروری واجب حتی انھم اذا وجدوا من الامام تاخیراً لاجل اشتغالہ بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیہ قائلین: انا منتظرون للدعاء ثانیاً وھو یطیل صلاتہ وحتی ان متولی المساجد یجبرون الامام الموظف علی ترویج ھذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام ومن لم یرض بذلک یعزلونہ عن الامامۃ ویطعنونہ ولا یصلون خلف من لایصنع بمثل صنیعھم، وایم اﷲ! ان ھذا امر محدث فی الدین المندوب ینقلب مکروھاً اذا رفع عن رتبتہ لأن التیمن مستحب فی کل شیٔ من امور العباداۃ لکن لماخشی ابن مسعودؓ ان یعتقدوا وجوبہ اشار الی کراھتہ۔ فکیف بمن اصرّ علی بدعۃ اومنکر؟… کان ذلک بدعۃ فی الدین محرمۃ… (وفی ص ۲۰۷) ویستحب ان یستقبل بعدہ ای بعد التطوع الناس ویستغفرون اﷲ ثلاثاً۔۔۔۔۔۔ ثم یدعون لانفسھم وللمسلمین رافعی ایدھمالخ فانہ لادلالۃ فیہ علی قرائۃکل ذلک والدعاء بعدھامجتمعین۔”(اعلا السنن 205/3)
” وقال الطیبی:وفیہ ان من اصر علی امر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من اصر علی بدعۃ او منکر۔”
(مرقاۃ المفاتیح:24/3)
واللہ اعلم بالصواب
بنت خالد محمود غفرلھا
10رجب المرجب 1439ھ
دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر