فتویٰ نمبر:959
سوال: السلام علیکم عمرہ کیا تھا وہاں مسجد حرام میں شرطے اندر داخل نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے کبھی کبھار مسجد حرام میں جگہ خالی ہونے کے باوجود صحن میں نمازیں پڑھیں
اور کبھی کبھار یہ ہوتا تھا کہ کچھ دکان والے یا ہوٹل والے آگے خالی جگہ ہونے کے باوجود اپنے ہوٹل کے دروازے کے سامنے روڈ پر صفیں بناتے تھے اور لوگ پھر ان کے پیچھے پیچھے اس میں خاص ترتیب بھی نہیں ہوتی تھی بلکہ کسی صف میں کچھ عورتیں کچھ مرد پھر پیچھے بھی اسی طرح آدھی صفمیں عورتیں آدھی میں مرد اسی طرح نماز با جماعت پڑھی جائے تو کیا نماز ہوجائے گی رہنمائی کریں؟
الجواب حامدۃو مصلية
سب سے پہلے اصولی بات یہ سمجھ لی جائے کہ اقتدا درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کے مکان کا حکما یا حقیقتا متحد ہونا ضروری ہے حقیقتا یعنی مسجد کے اندر ہی اقتدا ہو اور دوسری صورت یعنی اگر صفیں متصلا مسجد سے لے کر صحن اور صحن سے آگے بھی بن جائیں تو اقتدا درست ہوگی کیونکہ اتصال کی وجہ سے مکان حکما متحد سمجھا جائے گا,اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ امام کی حالت مشتبہ نہ ہو یعنی ارکان کے انتقالات(رکوع,سجدہ) واضح ہوں لیکن اگر متصل نہ ہوں اور درمیان میں دو صفوں کا فاصلہ رہ جائے یا اتنا فاصلہ کہ اس سے بیل گاڑی آسانی سے گزر جائے تو اقتدا درست نہ ہوگی.
مسجد کے اندر اتصال صفوف کے بارے میں عبارتیں مختلف ہیں بعض فتاوی میں یہ مرقوم ہے کہ مسجد کبیر میں فصل کثیر مانع اقتدا ہے اور بعض میں یہ قید مذکور نہیں کی گئی لیکن فی زمانہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مسجد کبیر میں بلاقید نماز درست ہوجانی چاہیے کیونکہ.مسجد حرام اور مسجد نبوی کافی وسیع ہے اور عام دنوں میں اتصال نہیں ہوتا تو ہزاروں نمازیوں کی نماز خراب ہوجائے گی پھر علامہ طحاوی رحمة اللہ علیہ نے اچھی توجیہ بیان فرمائی ہے کہ جب امام کی حالت مقتدیوں پر واضح ہو (یعنی امام کا رکوع اور سجدہ)تو اتحاد مکان کی وجہ سے اقتدا صحیح ہوجائے گی.(مستفاد از:فتاوی دارالعلوم زکریا/4/701)
اسی سوال کے مشابہ بنوری ٹاون کی طرف سے جواب ملاحظہ ہو تاکہ بات واضح ہوجائے;
جواب:
جماعت کے ساتھ نماز کے صحیح ہونے کے لیے صفوں کا متصل ہوناضروری ہے، صفوں کے اتصال کے بغیر امام کی اقتدا صحیح نہیں ہوگی، حرمین میں بھی جو لوگ مسجد کی حدود کے باہر سڑک وغیرہ پر صفیں بنالیتے ہیں، ان کے لیے بھی صفوں کا اتصال ضروری ہے، اتصال سے مراد یہ ہے کہ درمیان میں کوئی عام راستہ یا دو صفوں کے بقدر فاصلہ نہ ہو، البتہ اگر دیوار حائل ہو اور امام کے انتقالات (ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے) سے مقتدی باخبر رہیں تو ان مقتدیوں کی نماز درست ہے، اور اگر امام کے رکوع وسجدوں میں بھی اشتباہ ہو تو درست نہیں۔ اور اگرمسجدِ حرام کی حدود کے اندر دو صفوں کے برابر یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو نماز صحیح ہوجائے گی، البتہ بغیر عذر کے اتنا فاصلہ چھوڑنا درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم (بنوری ٹاون)
عورت مرد کے محاذی ہو
جب ایک عورت صف میں کھڑی ہو تو درج ذیل شرائط پائی جانے کی صورت میں اس عورت کے دائیں، بائیں اور پیچھے کے ایک ایک مرد کی نماز فاسد ہوگی، پوری صف والوں کی نماز فاسد نہیں ہوگی، وہ شرائط یہ ہیں:
(۱) وہ عورت مشتہاة ہو۔
(۲) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے بالمقابل پڑرہا ہو۔
(۳) یہ سامنا کم ازکم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔
(۴) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے یعنی نماز جنازہ کا حکم یہ نہیں ہے۔
(۵) مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہوں۔
(۶) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔
(۷) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو۔
(۸) مرد نے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو وہاں نہ کھڑے ہونے کا اشارہ نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا پھر بھی عورت برابر میں کھڑی رہی تو اب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
(۹) امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔
قولہ: “وتاسع شروط المحاذاة الخ” وأولہا: المشتہاة، ثانیہا: أن یکون بالساق والکعب علی ما ذکرہ، ثالثہا: أن تکون فی أداء رکن أو قدرہ، رابعہا: أن تکون فی صلاة مطلقة، خامسہا: أن تکون فی صلاة مشترکة تحریمة، سادسہا: إتحاد المکان، سابعہا: عدم الحائل، ثامنہا: عدم الإشارة إلیہا بالتأخر․ (وتاسع شروط المحاذاة) أن یکون الإمام قد نوی إمامتہا․ (طحطاوي مع المراقي: ص: ۳۳۱، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت) وفي الخانیة: لو صلت المرأة علی الصفة والرجل أسفل منہا بجنبہا أو خلفہا إن کان یحاذی عضو من الرجل عضوًا منہا فسدت صلاتہ لوجود المحاذاة ببعض بدنہا․ اھ․ ولیس ہنا محاذاة بالساق والکعب․ (المرجع السابق: ص ۳۲۹)․
حرمین شریفین کا بھی یہی حکم ہے؛ لہٰذا وہاں پر مردوں کو چاہیے کہ نماز کی نیت باندھنے سے پہلے دائیں بائیں اور سامنے دیکھ لیں کہ کوئی عورت تو نہیں کھڑی ہے، اس کے بعد نیت باندھیں، اگر پہلے اطمینان کرکے نیت باندھ لی اور نماز کے درمیان کوئی بالغ عورت برابر میں آکر کھڑی ہونے لگے تو اسے دورانِ نماز اشارہ سے روکنے کی کوشش کریں، اگر وہ اشارہ سے رک جائے فبہا ورنہ اس اشارہ کرنے سے مرد کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی، اب اگر وہ عورت برابر میں کھڑی ہوکر نماز پڑھنے بھی لگے پھر بھی مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ خود عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
واستفید من قولہ: بعد ما شرع أنہا لو حضرت قبل شروعہ ونوی إمامتہا محاذیا لہا وقد أشار إلیہا بالتأخر تفسد صلاتہ، فالإشارة بالتأخر إنما تنفع إذا حضرت بعد الشروع ناویا إمامتہا․ قال ط: والظاہر أن الإمام لیس بقید اہ أی لو حاذت المقتدی بعد الشروع وأشار إلیہا بالتأخر ولم تتأخر فسدت صلاتہا دونہ، وینبغی أن یعد ہذا فی الشروط، بأن یقال: ولم یشر إلیہا بالتأخر إذا حضرت بعد شروعہ، وینبغی أن یکون ہذا فی المرأة البالغة، أما غیرہا فغیر مکلفة․ (شامي: ج۱ ص۵۷۶، ط: سعید)
و فی امداد الفتاح:(ص;335)
“والمسجد وان کبر لایمنع الفاصل”
وفی الفتاوی الھندیہ:(88/1)
“والمسجد وان کبر لایمنع الفاصل فیہ…………ولو اقتدی بالامام فی اقصی المسجد والامام فی المحراب وانہ یجوز….”
و اللہ سبحانه اعلم
✍بقلم : بنت معین
قمری تاریخ:19.ذوالحجہ.1439
عیسوی تاریخ: 30.اگست.2018
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: