فتویٰ نمبر:879
سوال: ضروری کاغذی کاروائی کےسلسلے میں کورٹ جانا ہوا وہاں جج نے تمام حالات جان کر باتوں کے دوران کہا کہ ایسی صورت میں تو انعم کا نکاح بھی نہیں ہوا۔۔ کیونکہ ایجاب و قبول میں انعم بنت۔۔۔۔کے ساتھ سوتیلے باپ کا نام لگایا گیا تھا حقیقی باپ کا نام نہیں۔ غلط نام کے ساتھ ایجاب و قبول ہوا ہے۔
انعم نے جج کو جواب دیا کہ “والد کے بعد سگا چچا ہی ولی ہوتا ہے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ انہوں کس نام سے مجھے مخاطب کیا ایجاب و قبول کے دوران، کیونکہ میں انہیں کو اپنا والد سمجھتی ہوں ”
جج خاموش ہو گئی اور کہا “ٹھیک ہے اگر انعم کو کوئی
اعتراض نہیں تو ہمیں کیا ہے”
سوال یہ ہے کہ انعم کی بات کس حد تک درست ہے؟ کیا جج کے کہنے کے مطابق نکاح واقعی نہیں ہوا؟ اس کو تجدید کی ضرورت پڑے گی جب ولی جان بوجھ کر غلط ولدیت کی طرف منسوب کرے (محبت سے مجبور ہوکر) اور دلہن کو کوئی خبر بھی نہ ہو اس غلطی کا اور اعتراض بھی نہیں اگر پتا ہوتا تو؟
سائلہ: سارہ عبد الصمد
الجواب حامدۃو مصلية
نکاح کے وقت اصلی باپ کا نام ولدیت میں لینا چاہیے، سوتیلے باپ کا نام لینا جائز نہیں، لیکن نکاح کے وقت وہی لڑکی یعنی جس کا نکاح ہورہا ہے معروف ومتعین ہے اور اسی نے نکاح کو قبول کیا ہے تو نکاح صحیح ہوگیا اور سوتیلے باپ کا نام لغو اور بے کار رہا۔
سوال میں مذکور صورت میں اگر انعم نے مجلس عقد میں نکاح خود قبول کیا تھا تو اس کا نکاح صحیح ہوگیا کیونکہ نام پہچان کرانے اور متعین کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ فلاں کا نکاح ہورہا اور جب لڑکی خود اس مجلس میں موجود ہو تو اس لڑکی کا وجود ہی تعین کے لیے کافی ہے اور جیسا کہ پچھلے جواب میں آپ کو بتایا گیا تھا کہ چند اضطراری حالات کی بنا پر اگر سوتیلے باپ کے نام کے ساتھ منسوب کیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے.
مذکورہ سوال کے مشابہ ایک جواب میں جامعہ بنوریہ کا فتوی درج کیا جارہا ہے تاکہ سائلہ کو تسلی ہوجائے:
“سوال:زیدنےجس عورت سے شادی کی ہےاس کی پہلے فوت شدہ شوہرسےدو بیٹیاں ہیں۔ اب ان میں سےایک لڑکی کانکاح زیدنےایک لڑکے سے کیا، نکاح کے وقت زیدنے لڑکی کےحقیقی باپ کی جگہ اپنانام بتایا اوراسی پر اصرارکیا؛ تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ لڑکی کا حقیقی باپ کوئی اور ہے تونکاح ہوا کہ نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مجلسِ نکاح میں ایجاب و قبول کے دوران لڑکی کا وکیل لڑکی کے والد کے نام میں غلطی کردے ،یعنی لڑکی کا نام لیتے ہوئے اس کے ساتھ حقیقی والد کے بجائے کسی اور (مثلا سوتیلے والد یا مربی) کا نام لے اور اس کی طرف لڑکی کو منسوب کرے تو اس لڑکی کا نکاح صحیح نہیں ہوگا، البتہ اگر لڑکی خود مجلسِ نکاح میں حاضر ہو اور بجائے وکیل کے خود ایجاب و قبول کرے یا اس کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کیا جائے تو ولدیت کی غلطی کی صورت میں نکاح صحیح ہوجائے گا۔”(جامعہ بنوریہ ٹاون کراچی)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 26) پر ہے:
” (غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح۔
(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح”۔
و اللہ سبحانه اعلم
بقلم : بنت معین
قمری تاریخ:8.ذی الحج.1439
عیسوی تاریخ: 20.اگست.2018
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: