فتویٰ نمبر:840
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ عاٸشہ کے خاوند نہ عاٸشہ کو گھر دیا ،( اسے اپنی بہن کے گھر رکھا) اور نہ ہی خرچہ حتی کے اسکے تین بچے ہو گے سارا خرچہ بچوں کا عاٸشہ کے والد دیتے تھے تو عاٸشہ نے آخر کار مطالبہ کیا اپنے حق کا مگر وہ نہ مانا عاٸشہ اپنے والد کے گھر گٸ اب اسکی تیسری بیٹی چودہ کی ہو گٸ ہے وہ دوسروں کے گھروں میں کام کرنے لگ گٸ والد کے انتقال کے بعد تو وہ اب اپنے شوہر سے خلع چاہتی ہے مگر شوہر طلاق نہ دینے پر مصر ہے جبکہ اب شوہر کرسٹال کا نشہ بھی کرتا ہے تو وہ سہارا چاہتی ہے شادی کرنا چاہتی ہے کیا ایسی کوٸ صورت کہ قاضی شوہر کے قاٸم مقام بن کر عدالتی سطح پر طلاق دے اور عاٸشہ خلاصی پالے
والسلام
الجواب حامدۃو مصلية
عائشہ کو چاہیے کہ وہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں یہ دعویٰ دائر کرے کہ اتنے عرصے سے اس کا شوہر نہ گھر آباد کرتا ہے نہ نفقہ دیتا ہے عدالت شوہر کو مجبور کرے گی کہ یانان نفقہ دے اور تمام حقوق زوجیت ادا کرے یا بیوی کو طلاق دے اگر شوہر مان لے تو ٹھیک ورنہ عدالت کو اختیار ہے کہ عائشہ کا نکاح شوہر سے فسخ کر دے اس کے بعد عدت گزار کر عورت جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت درخواست برائے فسخ نکاح نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو معتبر بنائے اس لیے کہ یکطرفہ خلع کسی کے نزدیک بھی معتبر نہیں البتہ شوہر کا تعنت ثابت ہو رہا ہو اور عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کے الفاظ استعمال کیے تو فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ اس فیصلے کو معتبر مانا جائے گااور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے(شوہر کا تعنت) کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوا ہے.
[ج:۶،ص:۵۱۷]۔
فی المغنی لابن قدامۃ: فان امتنع ( المدعی علیہ) من الحضور أو تواریٰ فظاہر کلام أحمد : جواز القضاء علیہ لما ذکرنا عنہ فی روایۃ حرب ، وروی عنہ أبو طالب فی رجل وجد غلامہ عند رجل فأقام البینۃ أنہ غلامہ فقال الذی عندہ الغلام : أو دعنی ھذا رجل ، فقال أحمد : أھل المدینۃ یقضون علی الغائب یقولون : انہ لھذا الذی أقام البینۃ وھو مذہب حسن وأھل البصرۃ یقضون علی غائب یسمونہ الاعذار وھو اذا ادعی علی رجل الفا وأقام البینۃ فاختفیٰ المدعیٰ علیہ یرسل الی بابہ فینادی الرسول ثلٰثا فان کاء والا قد اعذروا الیہ ، فھذا یقوی قول أھل المدینۃ وھو معنی حسن قد ذکر الشریف أب وجعفر وأبو الخطاب أنہ یقضی علی الغائب الممتنع وھو مذہب الشافعی ، لأنہ تعذر حضورہ و سؤالہ فجاز القضاء علیہ کالغائب البعید ، بل ھذا أولیٰ لأن البعید معذور وھذا لا عذر لہ اھــ[ج:۹،ص:۱۱۱]
وفی الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف : فان امتنع من الحضور سمعت البینۃ وحکم بھا فی احدی الروایتین وھو المذہب اھــ[ج:۱۱،ص:۳۰۲]۔
وفی الحاوی الکبیر للعلامۃ الماوردی رحمہ اللہ : فان قال المدعی : لیست لی بینۃ ، فقد اختلف اصحابنا ، ھل یکون ھذا الامتناع من الحضور کالنکول فی رد الیمین علی المدعی أم لا ؟ علی وجھین: احدھما : أنہ لا یجعل نکولا ۔۔۔ والوجہ الثانی : وھو أشبہ أن یجعل کالنکول بعد النداء علی بابہ بمبلغ الدعوی و اعلامہ بأنہ یحکم علیہ بالنکول لوجود شرطی النکول فی ھذا النداء اھــ [ج:۱۶،ص:۳۰۲]۔
وفی المبدع : وان نکل قضی علیہ بالنکول نص علیہ واختارہ عامۃ شیوخنا اھــ
[ج:۱۰،ص:۶۴]
وفی الانصاف : ھو المذ ھب ۔[ج:۱۱،ص:۲۵۴]۔
وفی الفقۃ الاسلامی وأدلتہ : لکن المختار عند الحنابلۃ القول بعدم رد الیمین
(ج:١٦،ص:٣٠٢)
وفی المغنی لابن قدامۃ : وان قال المدعی : لا أرید اقامتھا (البینۃ) وانما أرید یمینہ اکتفی بھا استحلف لأن البینۃ حقہ فاذا رضی باسقاطھا وترک اقامتھا فلہ ذٰلک کنفںس الحق اھـ [ج:۹،ص:۸۹]۔ کذا فی الانصاف [ج:۱۱،ص:۲۶۳]والمبدع [ج:۱۰،ص:۶۷] و روضۃ الطالبین [ج:۲،ص:۴۰] و زاد المحتاج [ج:۴،ص:۵۴۱]۔
وفی البدائع : حتی لو قال المدعی : لی بینۃ حاضرۃ ثم أراد أن یحلف المدعی علیہ لیس لہ ذٰلک عندہ ، وعندھما لہ ذٰلک اھــ [ج:۶،ص:۲۲۶]۔
مستفاد: فتاوی عثمانی ج٢
و اللہ سبحانہ اعلم
بقلم:بنت سعید الرحمن
قمری تاریخ:٢٠ذى الحجه١٤٣٩
عیسوی تاریخ:٨ستمبر٢٠١٨
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
➖➖➖➖➖➖➖➖
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
📩فیس بک:👇
https://m.facebook.com/suffah1/
====================
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇
===================
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
===================
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: