بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے متعلق
1۔کسی سیاسی تنظیم کو ووٹ دینا شرعاً کیسا ہے؟ کیا یہ جائز ہے یا نہیں ہے ؟
2۔موجودہ جمہوریہ عدالتوں پر اپنا فیصلہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟
جزاک اللہ خیرا فی الدارین
المستفتی فضل ربی بن عبدالکریم
من پشاور دیر بالا
28 جمادی الثانی 1437ھ
الجواب حامداً و مصلیاً
1۔واضح رہے کہ ووٹ کی حیثیت ایک قسم کی شہادت ہے اور شہادت میں یہ تفصیل ہے کہ شہادت کبھی واجب ہوتی ہے اور کبھی استحباب و اباحت کے درجہ میں ہوتی ہے جہاں کہیں شہادت کے ترک کرنے سے مدعی کا حق سلب ہوتا ہوتو وہاں شہادت دینا واجب ہوتا ہے اور جہاں گواہوں کی تعداد زیادہ ہو دیگر گواہوں کی گواہی سے مدعی کو اس کا حق مل جاتا ہو تو وہاں گواہی دینا مستحب و مباح ہے.
انتخابات میں ووٹنگ کے دوران ہر شخص کو اپنے ضمیر سے یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ جو امیدوار کھڑے ہیں ان میں امانت دار، دیانت دار اور قابل کوئی کھڑا ہوا ہے یا نہیں اگر کھڑا ہوا ہے تو اسے ووٹ دینا چاہیے کیونکہ اگر اسے ووٹ نہ دیا تو اس کے مقابلے میں کوئی فاسق و فاجر کامیاب ہو جائے گا تو ایسی صورت میں ووٹ کا حق استعمال نہ کرنا کسی نااہل کے آنے کا سبب بنے گا اس لیے اس صورت میں ووٹ کا حق استعمال کرنا واجب ہے اور اگر یہ خطرہ نہ ہو تو ووٹ کے عدم استعمال میں کوئی مواخذہ نہیں.
اسی طرح اگر کسی انتخابی حلقہ میں حصہ لینے والے سارے امیدوار فساق و فجار نااہل ہوں کوئی بھی اہل نہ ہو تو ووٹر کے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ ووٹ کا بالکل استعمال نہ کرے اور اگر کوئی بھی امیدوار پوری اہلیت کا حامل نہ ہو البتہ اتنا فرق ہو کہ بعض امیدوار دوسرے کے مقابلے میں قدرے دیانت دار اور امانت دار ہوں تو اس صورت میں قدرے بہتر کوووٹ دینا بہتر ہے اور اگر کسی کو نہ دے تو بھی جائز ہے.
ووٹ کی ایک حیثیت کی بھی ہے اگر سفارش اچھی ہو تو ثواب ورنہ گناہ کا باعث بنے گی.
شرعی عدالت موجود نہ ہونے کی بناء پر موجود جمہوری عدالتوں سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں باقی اگر یہ علم ہو کہ فلاں معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے قانون کے خلاف دیا جاتا ہے تو اس کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے مذہبی سوجھ بوجھ رکھنے والی علاقائی پنجائیت وغیرہ سے فیصلہ کروایا جائے.
(172/2سعید)
فقط واللہ اعلم
کتبہ وقاص احمد
التخصص فی الفقہ الاسلامی
بجامعۃ العلوم الاسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراتشی